ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑاملک بن جائے گا۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام فیملی پلاننگ سے متعلق پینل ڈسکشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے طبی ماہر کا کہنا تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے شعبے میں حکام کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے اگر 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر آگیا تو ملک کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ ’اس وقت آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے، اگر ملک کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑ ا ملک بن جائے گا۔‘

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا تھا کہ ملک میں باقاعدہ فیملی پلاننگ کی کمی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی سمت درست نہیں۔

خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق پینل ڈسکشن میں سندھ گورنمنٹ کوسٹڈ امپلیمینٹیشن پلان (سی آئی پی) کے ڈاکٹر طالب لاشاری، ڈاکٹر شیرشاہ سید، ڈاکٹر منہاج قدائی، پروفیسر لبنیٰ بیگ، ڈاکٹر اشفاق شاہ اور ڈاکٹر نگہت شاہ پینل میں شریک تھے۔

مزید پڑھیں : مردم شماری نتائج: کراچی کی آبادی میں 60، لاہور میں 116 فیصد اضافہ

ماہرین کا کہنا تھا کہ فیملی پلاننگ سے متعلق ناقص اقدامات کی وجہ سے فیملی پلاننگ میں 34 فیصد کمی آئی جو گزشتہ برس 35 فیصد تھی۔

پینل ڈسکشن کے شرکا نے خواتین کی تعلیم پر زور دیا،انہوں نے کہا کہ عدم آگاہی کی وجہ سے 35 فیصد خواتین دورانِ حمل انتقال کرجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بچوں کی شرح اموات 10 فیصد ہے جو دیگر پڑوسی ممالک کی نسبت زیادہ ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں صرف 9 فیصد افراد ہی فیملی پلاننگ سے متعلق سوچتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق عدم آگہی کے بغیر بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے طے کردہ مقاصد کو پورا نہیں کیا جاسکتا,انہوں نے آبادی میں اضافے کی اہم وجہ کم عمری کی شادیوں کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اکثر افراد فیملی پلاننگ سے متعلق سوچتے ہی نہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں بیٹے کی خواہش بھی آبادی بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 2050 تک پاکستان کی آبادی 30 کروڑ سے زیادہ

پینل میں شریک ماہرین کا کہنا تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ابہام اور بے جا تشویش بھی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے میں اہم رکاوٹیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے 54 فیصد بچے قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں جنہیں بعد میں صحت کے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تاہم ملک کی 75 فیصد آبادی فیملی پلاننگ سے آگاہ ہے جس میں 50 فیصد خواتین شامل تھیں لیکن بہتر خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

پینل میں موجود طبی ماہر کا کہنا تھا کہ ’ آبادی میں اضافے کی وجہ سے ماؤں اور نومولو بچوں کی شرح اموات اور غربت میں پڑوسی ممالک کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ آبادی میں اضافے کی وجہ سے تعلیمی بنیادوں پر بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2 کروڑ 50 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔‘

مزید پڑھیں : ’ملک کی 29 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے‘

ماہرین کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کے مسائل میں اضافہ ہوا اوراسی وجہ سے ملک میں سماجی مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے طے کردہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے میڈیکل کالجوں کی طالبات کے لیے باقاعدہ ورکشاپس اور سمینارز کرانے چاہئیں۔

ان آگاہی سیمینارز سے دوسرے کالجوں کے طلبا بھی مستفید ہوں گے اور انہیں بھی خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت سے متعلق آگاہی حاصل ہوگی۔

پاکستان میں مڈوائف کی اہمیت سے متعلق ماہرین کا کہنا تھا کہ مڈوائف تربیت یافتہ ہونی چاہیے۔


****یہ خبر ڈان اخبار میں 3 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی****

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں