سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی جمال خاشقجی کے استنبول سے لاپتہ ہونے کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

ترک حکومت نے اس معاملے پر استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ترک سفارتی ذرائع نے بتایا کہ سعودی سفیر کی وزارت خارجہ آمد پر ترکی کے ڈپٹی وزیر خارجہ یاوز سلیم کرن نے سعودی سفیر کا استقبال کیا تھا۔

ترک وزارت خارجہ سے ملاقات میں چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سعودی عرب کے سفیر کا کہنا تھا کہ سعودی سفارتخانہ ترک حکام کے ساتھ تعاون کررہا ہے تاکہ قونصل خانے سے باہر جانے کے بعد جمال کی گمشدگی سے متعلق معلوم کیا جاسکے۔‘

سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ انہیں جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق کوئی معلومات نہیں،انہیں جیسے ہی کوئی سراغ ملا وہ ترک حکام کا اطلاع دیں گے۔

مزید پڑھیں : سعودی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والا صحافی 'ترکی سے لاپتہ'

ادھر اے پی کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے کا کہنا تھا خاشقجی سفارت خانے سے جانے کے بعد لاپتہ ہوئے۔

دوسری جانب ترک حکام کا مؤقف ہے کہ ہمیں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق جمال سعودی سفارتخانے کے اندر موجود ہیں۔

سعودی سفیر اور ترک حکام کے یکسر مختلف بیانات کی وجہ سے سعودی صحافی کی گمشدگی کا معمہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوگیا ہے جبکہ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعے کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی سعودی صحافی کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور اگر سعودی عرب مخالف مؤقف کے باعث جمال خاشقجی کو حراست میں لیا گیا ہے تو یہ سراسر غلط اور اشتعال انگیز عمل ہے۔

گزشتہ روز سعودی عرب کے ولی عہد کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ممتاز سعودی صحافی استنبول میں سعودی سفارتخانے کے دورے پر جانے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔

جمال کی منگیتر کے مطابق وہ گزشتہ دوپہر استنبول میں قائم سعودی سفارتخانے میں داخل ہوئے تھے اور اس کے بعد سے انہیں کسی نے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے متعلق کوئی اطلاعات موصول ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں : سعودی ولی عہد پر تنقید کے جرم میں نوجوان تاجر گرفتار

انہوں نے بتایا تھا کہ ہم دستاویزات کے سلسلے میں سعودی سفارتخانے گئے تھے لیکن مجھے جمال کے ہمراہ اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور ان کا موبائل بھی باہر ہی رکھوا لیا گیا تھا۔

سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے صحافی کے اہل خانہ اور قریبی دوستوں کا ماننا ہے کہ سعودی حکومت خصوصاً شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جمال خاشقجی کو حراست میں لیا گیا ہے۔

سعودی عرب سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے امریکا منتقل ہونے والے جمال لاپتہ ہونے سے قبل امریکی صحافتی ادارے واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے اور ادارے نے بھی ان کی گمشدگی کی تصدیق کی تھی۔

سعودی صحافی نے ماضی میں سعودی شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دی تھیں تاہم وہ سعودی ولی عہد کی حالیہ اصلاحات اور 2030 وژن کے تحت ملک کو جدید بنانے کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

گزشتہ سال تنقید نگاروں اور صحافیوں کے خلاف سعودی حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو جمال امریکا منتقل ہو گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں