سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے پنجاب حکومت، پنجاب ایڈووکیٹ جنرل اور پروسیکیوشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن کیس میں دوبارہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کے حوالے سے جواب طلب کرلیا۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹس میں سوال کیا گیا کہ ماڈل ٹاؤن سانحے پر پہلے ایک جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرا رکھی ہے، کیا قانونی طور پر اس ہی معاملے پر نئی جے آئی ٹی بنانا جائز ہے۔

ماڈل ٹاؤن سانحے میں اپنی والدہ کو کھونے والی نوجوان لڑکی بسمہ کی درخواست پر سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف، شہباز شریف کی طلبی کی درخواست خارج

عدالت میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ طاہر القادری بھی موجود تھے۔

طاہر القادری کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت پنجاب کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی جاری کی گئی رپورٹ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کیس میں ملزمان ہی اس وقت انتظامیہ کا حصہ تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جانب کے گواہ حکومتی دباؤ کی وجہ سے جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوسکے تھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ جے آئی ٹی نے یک طرفہ گواہان کو سنا جو غیر امتیازی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن میں مطلوب افسران کو عہدے نہ دیئےجائیں، عوامی تحریک کا مطالبہ

چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ قانونی طور پر جائز ہے کہ نئی جے آئی ٹی بنائی جائے جبکہ گزشتہ نے اپنی رپورٹ جمع کرا رکھی ہے۔

عوامی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی ایک سے زیادہ بار بنائی جاسکتی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ کے وکیل نے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سماعت کی وجہ سے کیس سے معذرت کرلی۔

انہوں نے بینچ سے درخواست کی کہ ٹرائل کو ہفتے میں 2 مرتبہ کیا جائے جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

تبصرے (0) بند ہیں