آئی ایم ایف پیکیج چین کا قرض واپس کرنے کیلئے نہیں لے رہے، وزیر خزانہ

13 اکتوبر 2018
اسد عمر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائرگرکر 8ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ چکے ہیں— فائل فوٹو
اسد عمر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائرگرکر 8ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ چکے ہیں— فائل فوٹو

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو آئی ایم ایف میں جانے کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے کے پاس جانا مجبوری تھی اور ہم نے کبھی بھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات نہیں کی۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) میں جانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے کے پاس جانا مجبوری تھی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے بیلٹ آؤٹ پیکیج کے لیے رجوع کرنا ناگزیر تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا بیل آؤٹ پیکج کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آپشن نہیں، موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں لیکن اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے والی ہوئیں تو فیصلے پر نظرثانی کر سکتے ہیں البتہ ابھی شرائط ہی نہیں تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائرگرکر 8ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ چکے ہیں، اپریل سے ستمبر تک روپے کی قدر میں 7فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھ گیا ہے۔

امریکا نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض دینے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن وزیر خزانہ نے کہا کہ امریکا آئی ایم ایف میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر تو ہے لیکن اس کے باوجود اس کے پاس عالمی مالیاتی ادارے میں ویٹو کا اختیار نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے اور موجودہ مالی صورتحال میں ہمارے پاس بھی ان سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں البتہ اس کے ساتھ ساتھ دوست ملکوں سے بھی بات چیت جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پی ٹی آئی کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن ہے؟

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب تھے اور اب یہ مزید کم ہو کر 8 ارب ڈالر تک آگئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ اقتصادی ماہرین سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی منظوری دے دی ہے۔

عمران خان کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف جانے کے اعلان کے بعد ملکی روپے کی قدر میں مزید کمی دیکھنے کو ملی اور ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 136روپے تک پہنچ گیا جہاں ایک دن قبل اس کی مالیت 124رروپے تھی۔

اسد عمر نے میڈیا سے گفتگو میں مزید کہا کہ جب تجارتی خسارہ بڑھے گا اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا تو ڈالر کی قیمت بڑھتی جائے گی۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم کا وفد 7نومبر کو پاکستان پہنچے گا جس میں قرض کے حوالے سے بات کی جائے گی لیکن ملکی سلامتی سے متعلق ناقابل قبول کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پاکستانی معیشت میں چین کی شمولیت خطرناک ہے، آئی ایم ایف

انہوں نے قرض کے حوالے سے زیر گردش افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں اور واضح کیا کہ آئی ایم ایف کا قرض چین کے قرضے ادا کرنے کے لیے نہیں ہے۔

یاد رہے کہ مائیک پومپیو نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت بننے سے قبل ہی ایک انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ آئی ایم ایف کو چینی قرض اتارنے کے لیے پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج نہیں دینا چاہیے۔

رواں سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہیں ملک کی معاشی صورتحال کو ابتر قرار دیتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرض کا عندیہ دیا تھا۔

ضرور پڑھیں: پاکستان، چین کے قرضوں کے باعث مشکلات میں پھنسا ہے، امریکا

اسد عمر نے اگست میں دیے گئے ایک انٹرویو میں ملک کی اقتصادی حالت کو ابتر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ قومی خزانے کے لیے 6 ہفتوں میں 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ چین اور آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پاکستان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر مسلسل تنزلی کا شکار ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ حسارہ بھی بڑھ رہا جبکہ اسٹیٹ بینک کو روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑی۔

گزشتہ کئی ہفتوں سے ماہر معاشیات خبردار کر رہے تھے کہ موجودہ خراب صورتحال اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بحران کے پیش نظر ملکی روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک پر چڑھے کھربوں روپے کے قرض کی ادائیگی اور درآمدات کی خریداری کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوگی۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہو بلکہ 1980 کی دہائی سے اب تک متعدد حکومتیں قرض کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کر چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان آئی ایم ایف کے پاس جانے پر قوم سے معافی مانگیں‘

اب تک پاکستان آئی ایم ایف سے 12مرتبہ قرض لے چکا ہے اور آخری مرتبہ 2013 میں اسی طرح کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت نے 6.6ارب ڈالر کا قرض لیا تھا۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو موجودہ ابتر معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے کم از کم 12ارب ڈالر درکار ہیں لیکن آئی ایم ایف سے 6 سے 7 ارب ڈالر تک قرض ملنے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں