آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2018
شہباز شریف سے لیگی رہنماؤں نے ملاقات بھی کی— فوٹو: علی وقار
شہباز شریف سے لیگی رہنماؤں نے ملاقات بھی کی— فوٹو: علی وقار

آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار قائد حزب اختلاف، مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کردی گئی۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شہباز شریف کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، اس موقع پر عدالت کے اندر اور باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن نے مقدمے کی سماعت کی، اس دوران شہباز شریف اپنی فائلیں خود اٹھا کر لائے اور کہا کہ میرا اس اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں، جس پر عدالت کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ آپ انتظار کریں، پہلے نیب کا مؤقف سنا جائے گا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

سماعت کے آغاز پر نیب نے شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 15 روز کی توسیع کی درخواست دائر کی، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ 10 روز میں کیا تفتیش کی۔

وکیل نیب نے بتایا کہ شہباز شریف سے جو سوالات پوچھے گئے، اس پر انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

اس دوران شہباز شریف کے وکیل نے نیب کی درخواست کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ نیب کیوں جسمانی ریمانڈ میں توسیع مانگ رہا ہے، 10 روز میں احتساب کے ادارے نے کیا تفتیش کی۔

شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ 10 روز میں نیب شہباز شریف سے کچھ نہیں نکلوا سکا کیونکہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں ان کے مؤکل پر جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے استدعا کی نیب کی جانب سے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست مسترد کی جائے۔

دوران سماعت نیب کی جانب سے حافظ اسد اللہ بھی بطور پراسیکیوٹر پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی۔

نیب کے دلائل پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر ان کے موکل کو ملوث کیا جارہا ہے، شہباز شریف نے کوئی غیر قانونی حکم جاری نہیں کیا۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف نے تفتیشی ٹیم سے تعاون نہیں کیا، آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں اور لوگوں کو بھی طلب کیا گیا جبکہ شہباز شریف سے بھی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تفتیش کر رہے ہیں۔

اس پر شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیا کہ نیب نے انہیں جتنی دفعہ بھی بلایا وہ پیش ہوئے اور جو سوالنامے دیے گئے ان کے جواب دیے۔

انہوں نے کہا کہ میں تفتیش میں مکمل تعاون کر رہا ہوں، 3 روز تک میرے پاس تفتیش کے لیے کوئی افسر نہیں آیا،10 دن کے ریمانڈ میں نیب نے جو پوچھا وہ بتایا، اب مزید جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ آج تک اپنے عہدے کا غلط استعمال نہیں کیا نہ ہی کبھی کرپٹ پریکٹسز کی اور کسی کو کوئی غیر قانونی احکامات نہیں دیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ مجھ پر الزام لگایا گیا کہ 2013 میں انتخابات جیتنے کے لیے کامران کیانی کی کمپنی کو ٹھیکہ دیا، یہ جھوٹا الزام ہے میں نے تو قوم کا پیسہ بچا کر اسے قومی خزانے میں ڈالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے صاف پانی کیس میں بلا کر آشیانہ میں گرفتار کر لیا گیا یہ کون سا قانون ہے۔

اس پر نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف سے ابھی مختلف پہلوؤں پر مزید تفیش کرنی ہے، لہٰذا مزید ریمانڈ دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے نیب پراسیکیوٹرز اور شہباز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ دیر بعد سناتےہوئے عدالت نے شہباز شریف کے ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کرتے ہوئے انہیں 30 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

شہباز شریف کی گرفتاری اور الزامات

واضح رہے کہ 5 اکتوبر کو نیب لاہور نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو صاف پانی اسکیںڈل کے حوالے سے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلف کیا تھا، تاہم انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں 6 اکتوبر کو انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں ان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے 10 روزہ ریمانڈ پر انہیں نیب کے حوالے کیا تھا۔

شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نیب نے بیان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا کنٹریکٹ لطیف اینڈ سنز سے منسوخ کر کے کاسا ڈویلپرز کو دیا جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا جس کے لیے مزید تفتیش درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا

شہباز شریف کو نیب نے جنوری 2016 میں پہلی مرتبہ طلب کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کے لیے دباؤ کا استعمال کیا اور لاہور کاسا کپمنی کو جو پیراگون کی پروکسی کپمنی تھی کو مذکورہ ٹھیکہ دیا۔

نیب کے بیان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف کے اس غیر قانونی اقدام سے سرکاری خزانے کو 19 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

شہباز شریف پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا لیکن ایل ڈی اے منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام رہا اور اس سے 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

یہ بھی یاد رہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں شہباز شریف سے قبل فواد حسن فواد، سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ، بلال قدوائی، امتیاز حیدر، شاہد شفیق، اسرار سعید اور عارف بٹ کو نیب نے اسی کیس میں گرفتار کیا تھا جبکہ دو ملزمان اسرار سعید اور عارف بٹ ضمانت پر رہا ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

noman ahmed Oct 16, 2018 12:54pm
lagta hai ke NAB me bhi corrupt ya phir na ahal log bethay hain jo 10 din me kuch proof nahi kar sakay.