لاہور: کسٹم عدالت نے لاہور اور میلسی سے تعلق رکھنے والے کھلونوں کے 3 درآمد کنندگان سے امپورٹ ٹیکس کی مد میں 6 کروڑ 30 لاکھ روپے وصول کرنے کے احکامات جاری کردیئے، اس کے ساتھ ان کمپنیوں پر 15 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔

ڈان کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق پورٹ قاسم کے کسٹم حکام کی جانب سے درآمد کنندگان کے خلاف مقدمہ کیا گیا تھا جنہوں نے شپمنٹ کی کلیئرنس کرواتے ہوئے کم ڈیوٹی ٹیکس کی ادائیگی کے فوائد حاصل کرنے کے لیے کھلونوں کو ’اشیا‘ کے طور پر ظاہر کیا۔

کسٹم ذرائع کے مطابق لاہور کے باس انٹرپرائزز، لکی ٹریڈرز اور میلسی کی زنگ انٹرپرائزز ماضی میں بھی متعدد مرتبہ کھلونوں کی غلط وضاحت پیش کرتے تھے تاکہ ان کی درآمد پر حقیقی ٹیکس کی ادائیگی سے بچیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس حکام کی مجرمانہ غفلت سے اربوں روپے کے محصولات وصول نہیں ہوسکے

کسٹم حکام کے مطابق مذکورہ کمپنیاں ’ایس کے ڈی‘ حالت میں موجود کھلونا کاروں اور ٹرائی سائیکل پر غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے 5 فیصد امپورٹ ڈیوٹی ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں جبکہ اصل میں ان مصنوعات پر 35 فیصد ڈیوٹی عائد ہوتی ہے۔

کسٹم حکام کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے درآمد کنندگان نے درآمد شدہ اشیا پر ٹیکس سے بچنے کے لیے متعدد کمپنیاں قائم کی ہوئی ہیں، جس میں اکثریت فرضی کمپنیاں ایسے پتے پر رجسٹرڈ ہیں جو وجود ہی نہیں رکھتا جس کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کھلونوں کے درآمد کنندگان اکثر شپمنٹ پر عائد ٹیکس سے بچنے کے لیے ان کے بارے میں غلط بیانی کرتے ہیں۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق کسٹم ڈیوٹی میں عائد ٹیکسز سے بچنے کی کوششوں کی وجہ سے گزشتہ سال ملکی خزانے کو 78 ارب روپے کا نقصان پہنچا تھا۔

مزید پڑھیں: نئی حکومت کا سابقہ حکومت کی ٹیکس استثنیٰ پالیسی واپس لینے پر غور

حکام کی جانب سے پورے ملک میں کسٹم دفاتر کو ہدایات جاری کی گئی ہیں جس میں انہیں مشتبہ چیزوں کی منظوری کے وقت نگرانی کو بہتر بنانے اور اس کی جانچ اور تشخیص کے عملے کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر کوئی مزید غلطی سامنے آئی تو وہ نقصانات کے ذمہ دار ہوں گے اور انہیں سرکاری ملازمین کے قواعد کے تحت سزا دی جائے گی۔

چناچہ اب کسٹم حکام ٹیکس قوانین کی مطابقت دیکھنے کے لیے دیگر صارفین کی مصنوعات مثلاً موبائل فون اور الیکٹرانکس اشیا کی بھی خصوصی اسکریننگ کر رہے ہیں۔


یہ خبر 29 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں