اسلام آباد: ملک میں جہاں ایک جانب حکومتی مشینری کئی برسوں کے لیے ریونیو کا ہدف حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے تو وہیں اداروں کی حمایت نہ ہونے اور ٹیکس حکام کی مجرمانہ غفلت کے باعث ٹیکس چوروں سے اربوں روپے کی مالیت کے ٹیکس کلیم کی وصولی نہیں ہوسکی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ ہر سال متعدد کیسز عدالتوں میں ختم ہوجاتے ہیں اور طویل تاخیر، ذمہ داری کی ایک سے دوسرے تک تشکیل اور ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک منتقلی کے باعث بڑی رقم نہیں مل پاتی۔

اس حوالے سے حالیہ ایک اجلاس میں کسٹمز اںٹرنل آڈٹ کے ڈائریکٹر جنرل نے اعلیٰ حکام کو بتایا تھا کہ 63 ارب روپے کے کم از کم 14 کیسز کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی اعلیٰ انتظامیہ کی جانب سے حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ایمنسٹی اسکیم: انکم ٹیکس میں رعایت سے 90 ارب روپے کا نقصان متوقع

ان کیسز میں سونے اور زیورات کے شعبے میں 35 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد کے بڑے آمدنی کے نقصانات کے کیسز بھی ہیں، جن میں بار بار داخلی آڈٹ اور انکوائریوں کی جانب اشارے کے باوجود کمزور قانونی دلائل اور غلط شقوں کی درخواست پر انہیں تاخیر کا شکار بنایا جارہا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ وزارت قانون کی متوقع رائے کی بنیاد پر ان تینوں مقدمات میں مزید بحث کرنے سے گریز کیا گیا، اسی طرح ایک کیس میں سال 13-2012 میں ماڈل کسٹمز کلیکٹر (روک تھام) لاہور میں ایس آر او 2001/ 266 (آئی) کی پابندیوں کے تحت 17 ارب روپے کے غیر ملکی تبادلوں کو واپس کرنے کے لیے 19 برآمد کنندگان کی وجہ سے 34 ارب روپے کی آمدنی کا نقصان شامل تھا۔

خیال رہے کہ یہ ایس آر او درآمدات اور برآمدات (کنٹرول) ایکٹ کے تحت وزارت تجارت کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔

اسی طرح ایس آر او کے تحت طلائی زیورات کی برآمدات کے بعد برآمدکنندگان کی جانب سے زرمبادلہ کی واپسی میں ناکامی ہوئی اور یہ بنائے گئے ایس آر او کی پابندیوں کی خلاف ورزی تھی۔

ذرائع کے مطابق اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ درآمدات اور برآمدات (کنٹرول) ایکٹ کی شق 3(3)، 5(1) اور 6(اے) اور کسٹم ایکٹ کے سیکشن 156(1)(9) کے مطابق کسٹم انتظامیہ اپنے دائرہ کار کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی کرے اور نادہندگان سے سزا کی مد میں مالیات کا دگنا زر مبادلہ وصول کرے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ 2015 میں اس کیس کے بارے میں پتہ چلنے کے بعد ایف بی آر کے آڈیٹرز نے لاہور کی کسٹم اتھارٹی کی وصولی کی کارروائی کا کہا تھا، تاہم متعلقہ اتھارٹی نے دائرہ کار میں کمی کا دعویٰ کرکے ایکشن لینے سے انکار کیا اور معاملے کی ذمہ داری غیر ملکی زر مبادلہ ٹربیونل کراچی پر ڈال دی جبکہ درآمدات اور برآمدات (کنٹرول) ایکٹ کے تحت یہ ان کا دائرہ کار نہیں تھا۔

بڑے گروہ

واضح رہے کہ لاہور کسٹم نے ذمہ داری کے باجود اس معاملے کو منتقل کیا جبکہ انہیں کلیکٹر پورٹ محمد بن قاسم کی جانب سے بتایا گیا کہ اس گھپلے میں بڑے گروہ شامل ہیں اور ملوث افراد کی معلومات حاصل کرنے کے لیے لاہور سے تعلق رکھنے والے جیولر (گنج بخش جیولرز) کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: مفتاح اسمٰعیل کا ٹیکس کی مد میں 100 ارب روپے ریفنڈ کرنے کا وعدہ

تاہم ریکارڈ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تقریباً 3 برس گزرنے کے باجود کسٹم اتھارٹی کی جانب سے نہ تو وہاں کا دورہ کیا گیا اور نہ گنج بخش جیولرز کی موجودگی کی تصدیق کی گئی۔

اس کے علاوہ 19 برآمدکنندگان میں سے ایک برآمد کنندہ نے صرف اکیلے 13 ارب روپے کے طلائی زیورات برآمد کیے اور اس کے کاروبار کی جگہ لاہور کی ایک معمولی علاقے چنگی امیر سدھو میں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 11, 2018 06:31pm
63 ارب روپے، 35 ارب 50 کروڑ روپے، 17 ارب روپے، 34 ارب روپے یا گجن بخش جیولرز کے 13 ارب روپے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو بہت بڑی رقم ہوتی ہے، ان سے وصولی لازمی ہونی چاہیے۔