اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلہ کیس میں کہا ہے کہ وزیر اطلاعات نے معاملے پر غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جبکہ وزیر اعظم کو بطور چیف ایگزیکٹو اپنے اختیارات ذمہ داری سے استعمال کرنے چاہیے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے معاملے پر فواد چوہدری کے بیان کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اطلاعات نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا، ان کا ذومعنی بات کرنے کا کیا مقصد تھا؟

انہوں نے کہا کہ وزیر اطلاعات نے پس پردہ عدالتوں کی بات کی ہم دیکھیں گے، وزیر اعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور اختیارات رکھتے ہیں لیکن ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات ذمہ داری سے استعمال کرنے چاہئیں، جبکہ عدالت ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ کیا حالات تھے کہ آئی جی کا تبادلہ کیا گیا، وزیر اطلاعات کو بلالیتے ہیں اپنے بیان کی وضاحت کریں، انہوں نے کہا آئی جی فون سننے کے پابند ہیں، کل یہ کہیں گے کہ چیف جسٹس بھی فون سننے کے پابند ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے زبانی حکم پر ہونے والا آئی جی کا تبادلہ روک دیا

چیف جسٹس نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ جو یہ کہتے ہیں سپریم کورٹ کی اتھارٹی نہیں ان کو بلائیں۔

عدالت نے فواد چوہدری اور اعظم سواتی کے بیانات کے ویڈیو کلپس بھی طلب کر لیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی آئین اور اتھارٹی کے تحت سپریم کورٹ نے ایک وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹایا تھا۔

انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک وزیر کیسے کہتا ہے آئی جی فون نہیں سنتا اور وہ فون سننے کا پابند ہے، اگر کوئی وزیر ایسا بیان دے تو اسے اندر نہ بھیج دوں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کمرہ عدالت میں موجود فواد چوہدری کے بھائی ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیصل، اپنے بھائی کو بلائیں کیوں انہوں نے ایسے بیانات دیئے۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ جناب میں بلا لیتا ہوں مگر بیانات سے غلط تاثر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کی کوئی بات نہیں سنیں گے، فواد چوہدری کو بلائیں کہ وہ آکر خود وضاحت کریں۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ آپ کے حکم پر عملدرآمد ہوگا، فواد کو کال کرکے بلالیتا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے کچھ نہیں چھپاؤں گا جو حقیقت ہے عدالت کے سامنے رکھوں گا، آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کے لیے کارروائی کا آغاز یکم ستمبر سے کیا گیا جبکہ تبادلہ غور و فکر کرنے اور جائزہ لینے کے بعد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیر مملکت برائے داخلہ کے ساتھ آئی جی کی میٹنگز کی تصاویر اور ویڈیو کلپس عدالت میں جمع کرائی ہیں۔

فواد چوہدری، اعظم سواتی کی پیشی

سماعت میں وقفے کے بعد فواد چوہدری اور اعظم سواتی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے یہ امید نہیں تھی، آپ نے عدالت پر طنز کیا۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں اخبار ساتھ لایا ہوں، میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی اسلام آباد جان محمد کو فوراً وطن واپس آنے کی ہدایت

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے خود آپ کو ٹی وی پر سنا ہے، آپ نے کہا اگر بیوروکریسی نے رول کرنا ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے.

انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی نہیں اس وقت آپ کی حکومت رول کر رہی ہے۔

عدالت نے فواد چوہدری کے وضاحتی بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا۔

چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے مکالمے کے دوران کہا کیا آپ نے سارا کیس ٹی وی پر لڑنا ہے، آپ نے خواتین سمیت خاندان کو اندر کرا دیا، کیا وہ آپ کی طاقت کے لوگ ہیں، ان کے گھر تین دن سے چولہے نہیں جلے۔

اعظم سواتی نے کہا مجھے دھمکی آئی تھی کہ بم سے اڑا دیا جائے گا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کا رقبہ کتنا ہے اور آپ نے قبضہ بھی کیا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو حکم دیا کہ کل اپنے اور بچوں کے تمام اثاثوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کریں، عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے متاثرہ خاندان کی درخواست دینے کی صورت میں اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ بھی درج کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔

'بیان سپریم کورٹ سے متعلق نہیں بیوروکریسی سے متعلق تھا'

آئی جی تبادلہ کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ 'عدالت میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے متعلق بیان نہیں تھا بلکہ بیوروکریسی سے متعلق تھا۔'

انہوں نے کہا کہ 'چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کا احترام ہے، چیف جسٹس سے ذاتی احترام کا تعلق ہے، آئین و قانون سپریم ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے اور ہوگا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'تحریک انصاف کی ترجیح آئین کے تحت حکومت چلانے میں ہے، سب کو معلوم ہے پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت کا کیا کردار ہے، پالیسی ملک کا وزیر اعظم بنائے گا اور اختیارات سے تجاوز ہونے پر قانون حرکت میں آئے گا۔'

واضح رہے کہ گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ 'آئی جی، وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے، یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کرنا کہ آپ فون نہ اٹھائیں تو ہیرو بن جائیں گے، اس سے ملک میں بے چینی پیدا ہوگی، اگر بیوروکریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلانی ہے تو انتخابات کی کیا ضرورت ہے، اگر ملک کا وزیر اعظم جائز شکایات پر بھی آئی جی تبدیل نہیں کر سکتا تو انتخابات کرانے کا کیا فائدہ، پھر تو چند بیوروکریٹس سے ہی حکومت چلا لیتے ہیں۔'

تبصرے (0) بند ہیں