آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی۔

آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف اپیل قاری سلام نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق اور غلام مصطفی چوہدری کی وساطت سے دائر کی، آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اپیل دائر کی گئی۔

نظر ثانی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا کہ آسیہ بی بی نے تفتیش کے دوران جرم کا اعتراف کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'ریاست کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کریں'

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ واقع کی ایف آئی آر تاخیر سے درج کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ملزم بے گناہ ہے۔

اپیل میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ آسیہ بی بی سے متعلق بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور آسیہ بی بی کا نام نظر ثانی اپیل کے فیصلے تک ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا جائے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے8 اکتوبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر آسیہ بی بی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا۔

عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس کا سامنا کرنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کے حکم کے بعد کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مذہبی جماعتوں نے احتجاج شروع کردیا۔

آسیہ بی بی کیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔

جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس پر ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی، تاہم ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں