ترک صدر رجب طیب اردوان کے مشیر کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے والوں نے ان کی لاش ٹھکانے لگانے کے لیے لاش کے ٹکڑے تیزاب میں حل کیے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یٰسن، جو خاشقجی کے دوست بھی تھے، نے روزنامہ حریت کو بتایا کہ 'ہم یہ دیکھ رہے کہ صرف لاش کے ٹکڑے ہی نہیں کیے گئے بلکہ اسے ٹھکانے لگانے کے لیے محلول کا استعمال کیا گیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ قتل کرنے والوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ لاش کی 'باقیات کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے'۔

علاوہ ازیں ترکی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ صحافی کی لاش کو تیزاب میں حل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی ’خطرناک شدت‘ پسند تھے، سعودی ولی عہد

انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی عرب کا قاتل اسکواڈ اس سے قبل بھی ایک ایسا آپریشن کرچکا ہے۔

اس سے قبل ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کو ایک خطرناک شدت پسند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی صحافی مصر کی اسلامی تنظیم، ’اخوان المسلمون‘ سے تعلقات تھے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اس معاملے سے قریبی لوگوں کے مطابق مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جوہن بولٹن کو کال کی اور کہا کہ جمال خاشقجی ایک ’خطرناک شدت پسند‘ تھے۔

ولی عہد کی جانب سے یہ کال سعودی عرب کی جانب سے جمال خاشقجی کی موت کی تصدیق سے پہلے کی گئی تھی، جس میں محمد بن سلمان نے جیرڈ کشنر اور جوہن بولٹن پر زور دیا تھا کہ وہ امریکا اور سعودی عرب کے اتحاد کا تحفظ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: سعودی عرب کا قاتلوں کو ترکی کے حوالے کرنے سے انکار

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جمال خاشقجی اسلامی تنظیم ’اخوان المسلون‘ کے رکن تھے۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر حکام اور جوہن بولٹن اس گروپ کے ایک طویل عرصے تک مخالفت کرتے رہے تھے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا کے لیے سعودی سفیر خالد بن سلمان نے گزشتہ ماہ جمال خاشقجی کو ایک ’دوست‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے ’اپنی زندگی کا اہم حصہ ملک کے لیے وقف کردیا‘۔

دوسری جانب جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے سعودی ولی عہد کی جانب کی بات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ مقتول صحافی کو خطرناک شدت پسند قرار دینا غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جمال خاشقجی اخوان المسلمون کے رکن نہیں تھے‘ اور وہ کئی برسوں سے ان دعووں کی تردید کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’پرتشدد تفتیش کے دوران سعودی صحافی کے ٹکڑے کیے گئے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ جمال خاشقجی کوئی خطرناک شخص تھے، اس طرح کے دعوے بے بنیاد ہیں‘۔

ادھر اس معاملے کے قریبی ساتھی کا کہنا تھا کہ جوہن بولٹن کی جانب سے اس طرح کا اشارہ نہیں دیا جس میں سعودی ولی عہد کی جمال خاشقجی سے متعلق بات کی تائید کی گئی ہو۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کا قونصل خانے کے اندر صحافی کے قتل کا اعتراف

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں