جمال خاشقجی کا قتل: سعودی عرب کا قاتلوں کو ترکی کے حوالے کرنے سے انکار

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2018
سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی سفارتخانے کے اندر قتل کردیا گیا تھا— فوٹو: اے ایف پی
سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی سفارتخانے کے اندر قتل کردیا گیا تھا— فوٹو: اے ایف پی

سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں کو حوالے کرنے کے ترکی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قاتل سعودی عرب کے باشندے ہیں لہٰذا ان پر قتل کا مقدمہ ان کے ملک میں ہی چلایا جائے گا۔

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات اور پالیسیوں کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی رواں سال 2 اکتوبر کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنے تھے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے۔

بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے اور پھر ابتدائی طور پر انکار کے بعد سعودی عرب نے ان کے قتل کا اعتراف کر لیا۔

مزید پڑھیں: ’پرتشدد تفتیش کے دوران سعودی صحافی کے ٹکڑے کیے گئے‘

سعودی اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ 59 سالہ صحافی جمال خاشقجی جھگڑے کے دوران مارے گئے۔

ادھر قتل کے بعد ترکی نے خاشقجی کے قتل کو سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیتے ہوئے سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ قتل میں ملوث 18 سعودی باشندوں کو ٹرائل کے لیے ترکی کے سپرد کرے۔

تاہم سعودی عرب کے وزیر خارجہ عدل ال زبیر نے ترکی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جن افراد کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، وہ سعودی شہری ہیں، ان سے تفتیش سعودی عرب میں ہی ہوگی اور سزا بھی وہیں دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: خاشقجی کا بھیانک قتل امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے، پینٹاگون

خاشقجی کے قتل پر امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے بھی سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے علاقائی سلامتی و استحکام پر اثر انداز ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ ایک سفارتخانے کے اندر صحافی کے قتل پر عالمی برادری کو بہت تشویش ہے۔

مناما میں فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی قوم عالمی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس سے علاقائی استحکام کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

تاہم سعودی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ صحافی کے بہیمانہ قتل سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے اور جلد ہی چیزیں معمول پر آ جائیں گی۔

ضرور پڑھیں: خاشقجی قتل کیس کی وضاحت تک سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی معطل رہے گی، جرمنی

انہوں نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات جاری ہیں، ہم سچائی جاننے کے بعد ذمے داران کو سزا دیں گے اور ایک نظام مرتب کریں گے تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قاتلوں کی گرفتاری کے باوجود ابھی تک مقتول صحافی کی لاش کے بارے میں کسی قسم کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سعودی عرب سے مستقل لاش کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس قتل کے بارے میں ہمارے پاس منظر عام پر لانے کے لیے مزید کئی ثبوت ہیں لیکن سعودی عرب کو جمال خاشقجی کی لاش دکھانا ہو گی۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اقوامِ متحدہ

یاد رہے کہ سعودی عرب نے قتل کے الزام میں 18 افراد کو حراست میں لیا ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مبینہ طور پر وہ قتل کے لیے خصوصی طور پر ترکی گئے تھے۔

واقع کے بعد انٹیلی جنس ایجنسی کے 5 سربراہان کو بھی برطرف کردیا گیا تھا جن میں سے 2 انٹیلی جنس سربراہان سعودی ولی عہد شاہ سلمان کے انتہائی قریبی تصور کیے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ میڈیا رپورٹ کے دعوے کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا اس کیس میں قریبی تعلق سامنے آرہا تھا اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جمال خاشقجی کے لیے 15 افراد کی ’قاتل ٹیم‘ 2 چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے استنبول آئی تھی، جن میں سے ایک شخص محمد بن سلمان کا ’قریبی ساتھی تھے‘ جبکہ 3 افراد کا تعلق سعودی ولی عہد کی سیکیورٹی سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں:خاشقجی کا قتل سنگین غلطی تھی، سعودی وزیر خارجہ

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے معاملے پر بڑھتے ہوئے غم غصہ کا جواب دینے کے لیے سعودی عرب نے ’قربانی کے بکرے‘ تلاش کیے تاکہ ہفتوں سے جاری طویل بحران کا خاتمہ اور سعودی اعلیٰ قیادت خاص طور پر محمد بن سلمان پر سے الزامات کا رخ موڑا جاسکے۔

ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی اور بعدازاں انہیں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کا قونصل خانے کے اندر صحافی کے قتل کا اعتراف

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں