پاکستانی میڈیا کے خلاف مسلح حکمت عملیاں اور تشدد کوئی نئی بات نہیں بلکہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد تو محض فرائض کی انجام دہی کو ادا کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔

تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی و غیر ریاستی عناصر بظاہر میڈیا پر بڑا پریشر ڈالنے اور اسے دھمکا کر خاموش کرنے کی غرض سے ایک نیا حربہ استعمال کررہے ہیں۔

جمعرات کی رات سادہ لباس پہنے متعدد مسلح افراد کراچی پریس کلب کی عمارت میں گھس آئے اور آزادانہ طور پر عمارت کی حدود میں دندناتے پھرے۔

موقعے پر موجود افراد کے مطابق، وہ افراد ایک پولیس موبائل کے ساتھ گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں کراچی پریس کلب پہنچے۔ اندر گھس آنے والوں نے کلب کے چوکیدار کو دھکا دے کر ایک طرف کردیا اور صحافیوں کو ہراساں کیا۔

جمعے کے روز میڈیا برادری نے اس ناقابلِ قبول اور تاریخ میں پہلی بار ہونے والے اس حملے کے خلاف سخت ردِعمل پیش کیا، جبکہ ریاستی افسران نے آگے بڑھ کر صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

حکومتِ سندھ کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ پریس کلپ پر چھاپا ’غلط فہمی‘ کی بنیاد پر مارا گیا تھا۔ چونکہ کراچی پریس کلب ایک مشہور و معروف جگہ ہے اس لیے یہ دعویٰ سوالات کو جنم دیتا ہے۔

تمام دستیاب شواہد کو مدِ نظر رکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس چھاپے کے پیچھے سیکیورٹی ادارے سے وابستہ عناصر ہیں۔

یہ کہنا ہی ہوگا کہ اس قسم کا سلوک بالکل بھی قابلِ قبول نہیں اور اس واقعے کے پیچھے موجود افراد کو آگے آکر وضاحت دینا ہوگی۔ جیسا کہ ایک سینئر صحافی نے بھی بتایا کہ ایوب، ضیا اور مشرف جیسی طاقتور فوجی شخصیات کے ادوار میں بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اس قسم کے حربے استعمال نہیں کیے۔

موجودہ منظرنامے میں، میڈیا انتہاپسندوں، شدت پسندروں اور اس کے ساتھ ساتھ اسٹیبشلمنٹ میں شامل چند عناصر کی جانب سے دباؤ، دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کر رہی ہے۔

اس چھاپے کی مکمل طور پر جانچ کیے جانے کی ضرورت ہے اور اس میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہوگا۔ اس معاملے کو سینیٹ میں بھی اٹھایا گیا، جبکہ ایوانِ بالا نے سندھ حکومت سے اس حملے پر رپورٹ طلب کرلی ہے۔

اگر واقعے کے ذمہ داروں کو سزا نہیں ہوئی تو آزاد میڈیا کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے عناصر کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔

جمہوری نظام میں مسلح افراد کو اپنی مرضی کے مطابق جہاں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ جب تک اس واقعے کی مکمل اور تیز جانچ نہیں ہوتی، پاکستان میں آزاد میڈیا کے لیے اسپیس اور بھی زیادہ تنگ ہوتا چلا جائے گا۔

یہ اداریہ 10 نومبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں