اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں اکثر نہایت ڈرامائی اور بے اعتدال ہوتی ہیں اور یہ چیز کراچی میں حال ہی میں اس وقت نمایاں طور پر نظر آئی جب صوبائی محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے سینئر صحافی نصراللہ خان چوہدری کو گرفتار کیا۔ انہیں اب مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں ریمانڈ پر جیل حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

نصراللہ چوہدری کی گرفتاری اور ان کے خلاف لگنے والے الزامات نے میڈیا حلقوں میں کافی ہلچل مچا دی ہے۔ واقعتاً مشتعل صحافی برادری تفصیلات کا مطالبہ کررہی ہے اور اس فوری ایکشن پر سوالات اٹھا رہی ہے جس سے پہلے نامعلوم افراد (ممکنہ طور پر سیکیورٹی حکام) نے کراچی پریس کلب پر چھاپہ مارا تھا۔

بظاہر نصراللہ چوہدری کی گرفتاری کے لیے مارے جانے والے چھاپے کو حکومت کی جانب سے میڈیا کی آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی۔

پڑھیے: کراچی کے سینئر صحافی کو گھر سے اٹھالیا گیا، صحافتی تنظیمیں

پھر اس سب کے دوران سالوں سے منظرنامے پر موجود اس صحافی کی گرفتاری کی توجیہہ پیش کرنے کے لیے کوئی چیز سامنے نہیں آئی ہے۔

اس گرفتاری کو ان کے پاس موجود جہاد سے متعلق ان رسالوں اور کتابچوں کی موجودگی سے جوڑا جا رہا ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ان کے گھر چھاپے کے دوران برآمد ہوا تھا۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے مواد کی موجودگی اتنے انتہائی ایکشن کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے؟ کیونکہ بہرحال صحافیوں کو حکومتی، دہشتگردی اور دیگر حلقوں میں ہونے والی پیش رفتوں سے آگاہ رہنا پڑتا ہے۔

قانون کی رٹ قائم کرنے کی بات ہو تو اس میں کسی رعایت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مگر کھلے مباحثوں اور معلومات کے آزاد تبادلوں کے اس دور میں تفتیش کار اور استغاثہ اب بھی ان کی گرفتاری کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کرسکے ہیں۔

پڑھیے: کراچی پریس کلب میں سادہ لباس مسلح اہلکاروں کی صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کوشش

صحافی تنظیمیں کراچی میں اپنے ساتھی کی گرفتاری کے خلاف کھڑی ہوچکی ہیں اور امکانات ہیں کہ آنے والے دنوں میں احتجاج میں تیزی آئے گی۔

جب تک کہ حکومت حراست میں لیے جانے والے شخص کے فرضی 'جرائم' کے بارے میں اپنے ابتدائی دعوؤں کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرتی، تب تک اس کے اقدامات کو غلط اور غیر منصفانہ ہی تصور کیا جائے گا۔

جہادی لٹریچر کی موجودگی کا الزام اگر سچ بھی ہو تب بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

انگلش میں پڑھیں

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 16 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں