اسلام آباد ہائیکورٹ: نئے چیف جسٹس نے سابق چیف کے احکامات معطل کردیے

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2018
جسٹس اطہر من اللہ نے منصب سنبھالنے کے بعد ایک اصولی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے 
—فائل فوٹو
جسٹس اطہر من اللہ نے منصب سنبھالنے کے بعد ایک اصولی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے —فائل فوٹو

اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پیش رو جسٹس (ر) انور کاسی کی جانب سے ’منظورِ نظر افسران‘ کی ترقی، تبادلے یا تعیناتی اور سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کرنے کے احکامات معطل کردیے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مذکورہ معاملات عدالت عالیہ کے سینئر ججز پر مشتمل انتظامی کمیٹی کو تفویض کردیے۔

واضح رہے کہ جسٹس انور کاسی مقررہ عمر تک پہنچنے کے بعد 27 نومبر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے لیکن ریٹائرمنٹ سے محض ایک روز قبل انہوں نے سرکاری مسجد کے خطیب محمد شاہد کو گریڈ 10 سے گریڈ 17 میں ترقی دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا

واضح رہے کہ 26 ستمبر 2016 کو سپریم کورٹ کے دیے گئے تاریخی فیصلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے کی گئی 70 سے زائد تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور سرکاری افسران کی ان تقرریوں اور ناجائز ترقیوں کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

کمیٹی کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی نے 13 مئی 2014 کو خطیب مسجد کو غلط طور پر گریڈ 17 میں ترقی دی جس کے بعد ان کی واپس ان کے پرانے پے اسکیل بی پی ایس-10پر کردی گئی تھی جس پر وہ 2011 میں تعینات ہوئے تھے۔

فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ’یہ ترقی سروس قوانین کے متعین کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کے تحت کی گئی تھی‘۔

مزید پڑھیں: وکلا کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے استعفے کا مطالبہ

اس کے ساتھ جسٹس اطہر من اللہ نے ہائی کورٹ کے گریڈ 18 کے 2 افسران، کورٹ ریڈر مدثر ریاض اور اسٹینو گرافر ثنا اللہ کو کی جانے والی سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کو بھی روک دیا، جنہیں غیر قانونی طور پر اسٹیٹ آفس کی جانب سے رہائش گاہیں الاٹ کی گئی تھیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے 5 افسران کی تقرری اور تبادلے بھی معطل کردیے، جس میں جسٹس انور کاسی کے سیکریٹری محمد سہیل بھی شامل تھے جنہیں جسٹس انور کاسی نے 26 نومبر کو ڈپٹی رجسٹرار ایڈمنسٹریشن تعینات کیا تھا جو اسلام آبا د ہائیکورٹ میں ایک نہایت اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی نے فیصلے کی روشنی میں محمد سہیل کی بھی گریڈ 20 سے واپس گریڈ 18 پر تنزلی کردی، جو جسٹس انور کاسی کے پرسنل سیکریٹری کی حیثیت سے 2011 سے گریڈ 18 پر ان کے ساتھ کام کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس اطہر من اللہ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بنانے کیلئے اجلاس طلب

محمد سہیل کی 2012 میں بی پی ایس 19 میں ترقی کی گئی تھی اور فروری 2013 میں جسٹس انور کاسی کے چیف جسٹس ہائیکورٹ بننے کے بعد انہیں اسی ماہ بی پی ایس 20 میں ترقی دے دی گئی تھی۔

جس کے بعد کمیٹی نے ان کی ترقی کا حکم نامہ برطرف کرتے ہوئے انہیں واپس بی پی ایس 18 پر مقرر کردیا تھا۔

اس کے علاوہ جن افسران کی ترقی کا حکم نامہ معطل کیا گیا ان میں ڈپٹی رجسٹرار عمر فاروق، محمد سلطان، مرزا عامر بیگ اور سعید اختر شامل ہیں۔

اصولی کمیٹی

جسٹس اطہر من اللہ نے منصب سنبھالنے کے بعد ایک اصولی کمیٹی بھی تشکیل دی، جس کی سربراہی وہ خود کریں گے جبکہ دیگر اراکین میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، رجسٹرار راجہ جواد عباس حسن، بابر ستار، حافظ عرفات احمد، ڈسٹرک اور سیشن جج واجد علی، کامران بشارت مفتی، ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج محمد عدنان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے افسران آصف اقبال اور طاہر لونی شامل ہیں۔


یہ خبر 30 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں