اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں سابق منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) شیخ عمران الحق کا تقرر خلاف ضابطہ اور شفافیت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ انکشاف نیب نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کیا۔

نیب کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ عمران الحق کی بطور ایم ڈی پی ایس او تعیناتی میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کا تقرر غیر قانونی ہے اور وہ شفافیت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتی۔

مزید پڑھیں: 9 سرکاری افسران اضافی تنخواہیں واپس نہیں کررہے، نیب کی سپریم کورٹ میں رپورٹ

خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے غیر معقول ٹیکسز اور پیٹرولیم مصنوعات پر فیس کو ختم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران نیب کو ہدایت کی تھی کہ ایسے سرکاری افسران جو 15 لاکھ یا اس سے زائد روپے ماہانہ سے زائد تنخوا لیتے ہیں ان کے تقرر کے طریقہ کار کی تحقیقات کی جائیں۔

رواں برس یکم جولائی کو ملک میں موجود نگراں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا، جس کے بعد عوام میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا تھا۔

پی ایس او میں ایم ڈی کی تقریری سے متلعق تحقیقات کے بعد نیب نے وضاحت پیش کی کہ شیخ عمران الحق بطور قائم مقام ایم ڈی پی ایس او 49 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتے رہے جبکہ پی ایس او کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر فنانس یعقوب ستار کی ماہانہ تنخواہ 27 لاکھ 60 ہزار روپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری افسران کی ترقیوں کا معاملہ قانونی پیچیدگی کے باعث التوا کا شکار

نیب نے الزام عائد کیا گیا کہ عمران الحق کو دیے جانے والے پیکج کو متعلقہ حکام سے منظور نہیں کروایا گیا تھا۔

بیورو کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عمران الحق کا تقرر ذاتی دوستی کی وجہ سے کیا گیا جبکہ ان کا اس شعبے میں تجربہ بھی نہیں ہے۔

نیب نے کہا کہ ان کی تعیناتی میں سپریم کورٹ کی جانب سے تعین کردہ قانون، ایمانداری کے بنیادی اصولوں اور شفافیت میں خلاف ورزی کے واضح شواہد ملے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں