زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2018
وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی زلفی بخاری—فائل فوٹو
وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی زلفی بخاری—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی زلفی بخاری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے زلفی بخاری کی جانب سے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

خیال رہے کہ زلفی بخاری نے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے عدالت میں دراخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: زلفی بخاری کے بیرون ملک سفر پر کوئی پابندی نہیں، نیب

اس درخواست پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے 4 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے آج سنایا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ نیب قانون کے مطابق زلفی بخاری کے خلاف تحقیقات جاری رکھے گا اور عدالتی فیصلے سے اس تحقیقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے کے اہم نکات

فیصلے میں کہا گیا کہ زلفی بخاری نیب کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، نیب نے ایک مرتبہ خود بھی زلفی بخاری کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جبکہ ریکارڈ پر بھی ایسا کچھ نہیں کہ دوران انکوائری زلفی بخاری نے نیب سے تعاون نہیں کیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نیب زلفی بخاری کے تعاون نہ کرنے کا دستاویزی ثبوت نہیں دے سکا، لہٰذا 4 اگست 2018 کا ای سی ایل میں نام ڈالنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

زلفی بخاری کی بات کی جائے تو ان کا شمار وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔

زلفی بخاری کا معاملہ

واضح رہے کہ زلفی بخاری کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب 11 جون 2018 کو مدینہ روانہ ہونے والی نجی پرواز میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ان کی اہلیہ بشریٰ، پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان اور ان کی اہلیہ کے علاوہ زلفی بخاری بھی سفر کررہے تھے۔

تاہم مذکورہ پرواز ایک گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی تھی کیونکہ زلفی بخاری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں درج تھا، جس کے باعث امیگریشن اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے انہیں بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر روک لیا تھا۔

ایف آئی اے حکام نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ای سی ایل میں شامل نام زلفی بخاری کا ہی ہے اور انہیں وزارت داخلہ نے ‘ایک مرتبہ سفر’ کی اجازت مانگنے پرسعودی عرب جانے دیا تھا۔

واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ذوالفقار حسین بخاری عرف زلفی بخاری پر آف شور کمپنی رکھنے اور آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں تحقیقات کر رہی ہے اور نیب نے کئی مرتبہ انہیں پیشی کے نوٹس بھی جاری کیے ہیں۔

اس ضمن میں سپریم کورٹ کی جانب سے آف شور کمپنیوں کے حامل تمام افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی، جس پر نیب نے انہیں بھی پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

علاوہ ازیں ماہ اگست کے آغاز میں ہی نیب کی درخواست پر عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

جس پر زلفی بخاری نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر مختلف سماعتیں ہوئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: زلفی بخاری پر سے سفری پابندی ہٹانے کی درخواست مسترد

تاہم اس کیس میں اہم موڑ اس وقت آیا تھا جب نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر اور زلفی بخاری کیس میں بھی نیب کی نمائندگی کرنے والے وکیل عمران شفیق نے 4 دسمبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

استعفیٰ دینے سے قبل نیب پراسیکیوٹر نے بتایا تھا کہ درخواست گزار زلفی بخاری نے تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہونے سے گریز کیا اور خود کو انکوائری سے متعلق کارروائی سے بھی دور رکھا۔

نیب نے عدالت کو بتایا تھا کہ زلفی بخاری اور ان کے اہلِ خانہ کے نام پر کے فیکٹر، بروڈبری، بے ٹیک لمیٹڈ، بیلا ٹریڈنگ، پوئیم ٹریڈنگ اور جینسٹم ٹریڈنگ لیمیٹڈ انکارپوریٹڈ نامی کمپنیاں 2006 سے بی وی آئی میں موجود ہیں۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری اپنی تقرری کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔

ایک شہری نے زلفی بخاری کی بطور معاون خصوصی تقرری چیلنج کر رکھی ہے اور عمران خان اور کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں