طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دائرہ کار میں ’افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا، قیدیوں کی رہائی اور شہریوں پر حکومتی فورسز کے حملے روکنا‘ شامل ہے۔

خبررساں ادارے اے پی کے مطابق اس سے قبل امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹ کیا کہ ’متحدہ عرب امارات میں رواں ہفتے مذاکرات معنیٰ خیز‘ رہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں، امریکا

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات میں جاری مذاکراتی عمل میں سعودی عرب، پاکستان اور اماراتی نمائندے بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے افغانستان حکومت سے براہ راست ملاقات سے انکار کرتے ہوئے انہیں امریکی کٹھ پتلی قرار دیا۔

طالبان حکام کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے تین نمائندے حافظ یحیحی، سعد اللہ حماس اور ڈاکٹر فقیر بھی موجودہ مذاکرات کا حصہ ہیں۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حقانی نیٹ کے ترجمان سے امریکی وفد کی پہلی ملاقات ہے۔

مزیدپڑھیں: بھارت، ماسکو طالبان مذاکرات میں شرکت کیلئے رضامند

واشنگٹن نے حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔

اس حوالے سے طالبان حکام نے بتایا کہ دوران مذاکرات زلمے خلیل زاد نے مغوی 61 سالہ امریکی پروفیسر کیون کنگ اور آسٹریلوی ٹیموتھے ویکس کی رہائی پر زور دیا۔

مغوی پروفیسر کیون کنگ کا ویڈیو پیغام 2017 میں نشر ہوا جس میں ان کی صحت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔

حکام نے بتایا کہ طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر تینوں طالبان رہنماؤں کو اماراتی مذاکرات میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کا 17 سال میں پہلی بار جنگ بندی کا اعلان

طالبان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے امریکی تسلط ختم کرنے کی بات کی جبکہ وہ یونیورسٹی کے اساتذہ سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی پر زور دیتے رہے تاہم جنگی بندی پر کوئی بات نہیں ہوئی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے داخلی امور پر امریکا کے ساتھ کوئی بحث و مباحثہ نہیں کریں گے، ہم ان سے کوئی رائے طلب نہیں کرنا چاہتے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں