سانحہ 12 مئی سے متعلق 11 کیسز دوبارہ کھول دیئے گئے اور تازہ ٹرائل کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت بھیج دیئے گئے۔

سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت پر 12 مئی 2007 کو خون خرابے کے حوالے سے وہ کیسز دوبارہ کھولے گئے ہیں جنہیں 'اے' کلاس قرار دیا گیا تھا، یعنی ان کیسز کی کارروائی عدالت کی منظوری سے روک دی گئی تھی۔

پولیس عہدیداران نے عدم ثبوتوں کی بنا پر 'اے' کلاس قرار دیئے گئے کیسز کی رپورٹ انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج کو پیش کی، جنہوں نے کیسز کی فائلیں دوبارہ ٹرائل کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 2 کو بھجوا دیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر دو میں سانحہ 12 مئی کے 4 کیسز پہلے سے زیر ٹرائل ہیں جن میں میئر کراچی وسیم اختر، ایم کیو ایم کے دیگر 21 رہنماؤں کے ہمراہ نامزد ہیں اور ان پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔

دوبارہ کھولے جانے والے مقدمات گڈاپ، بہادر آباد، فیروزآباد اور ایئرپورٹ پولیس اسٹیشنز میں درج ہیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ 12 مئی: 50 افراد کے قاتلوں کےخلاف مقدمات میں پولیس کی عدم دلچسپی

واضح رہے کہ 11 ستمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ 12 مئی سے متعلق ان کیسز کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے یہ حکم اقبال کاظم کی درخواست پر دیا جنہوں نے درخواست میں معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔

وفاقی حکومت کے نمائندے اور عدالتی قوانین نے درخواست گزار کے حق میں دلائل دیئے جبکہ سندھ حکومت نے اس خیال کی مخالفت کی تھی۔

ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سندھ حکومت کو معاملے کی دوبارہ انکوائری کا حکم بھی دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ 12 مئی کیس: مفرور 16 ملزمان کی گرفتاری کیلئے اشتہار

12 مئی 2007 کو پیش آنے والا واقعہ

یاد رہے کہ آج سے قریباً 11 سال قبل 12 مئی 2007 کے روز جب اس وقت کی وکلا تحریک عروج پر تھی تو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے سیاسی کارکنوں پر نامعلوم افراد نے گولیاں برسا دی تھیں۔

شہر میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے۔

تاہم اس وقت کی انتظامیہ نے انہیں کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

اس روز کراچی کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کے دوران وکلا سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں