کراچی: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ 12 مئی کے ایک اور مقدمے میں میئر کراچی وسیم اختر اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

خصوصی عدالت میں سانحہ 12 مئی کے 4 مقدمات کی سماعت ہوئی جن میں وسیم اختر اور دیگر ملزمان پیش ہوئے۔

عدالت نے تھانہ ایئرپورٹ میں دائر مقدمے میں میئر کراچی وسیم اختر اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر کیس کے گواہان کو طلب کر لیا۔

ملزمان نے کمرہ عدالت میں صحت جرم سے انکار کیا۔

عدالت مقدمے کے 9 مفرور ملزمان کو پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔

کیس کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ 12 مئی کیس: مفرور 16 ملزمان کی گرفتاری کیلئے اشتہار

واضح رہے کہ کراچی کے مختلف تھانوں میں سانحہ 12 مئی کے 7 مقدمات درج ہیں، جن میں سے ایک مقدمے میں وسیم اختر و دیگر پر پہلے ہی فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔

گزشتہ ماہ سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ 12 مئی سے متعلق مقدمے میں تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سانحہ 12 مئی 2007 کی تحقیقات سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے معاملے کی ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا، ساتھ ہی سندھ حکومت کو تحقیقاتی ٹربیونل تشکیل دینے کا بھی حکم دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سانحہ 12 مئی کے حوالے سے 65 کیسز کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے ایک سینئر جج مقرر کرنے کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: سانحہ 12 مئی: 50 افراد کے قاتلوں کےخلاف مقدمات میں پولیس کی عدم دلچسپی

12 مئی 2007 کو پیش آنے والا واقعہ

یاد رہے کہ آج سے قریباً 11 سال قبل 12 مئی 2007 کے روز جب اس وقت کی وکلا تحریک عروج پر تھی تو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے سیاسی کارکنوں پر نامعلوم افراد نے گولیاں برسا دی تھیں۔

شہر میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے۔

تاہم اس وقت کی انتظامیہ نے انہیں کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

اس روز کراچی کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کے دوران وکلا سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں