کردوں کی قیادت میں شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے قبل از وقت فوج واپس بلانے کے سنگین نتائج ہوں گے اور یہ فیصلہ خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

امریکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق کُرد فورسز کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی داعش کو شکست ہوئی ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ 'داعش کے خلاف جنگ اس وقت ایسے موڑ پر ہے جہاں امریکی اتحاد سے مزید مدد کی ضرورت ہے۔'

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوج واپس بلانے کے بعد کُرد فورسز کی جانب سے یہ پہلا باقاعدہ بیان سامنے آیا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر کا شام سے فوج واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع، روس کا بھی خیر مقدم

شام سے فوج واپس بلانے کے امریکی فیصلے نے واشنگٹن کے کُرد اتحادیوں کو بے چین کردیا ہے، جو شام میں امریکا کے سب سے زیادہ قابل بھروسہ شراکت دار اور داعش کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ موثر زمینی فورس ہے۔

گزشتہ 4 برس میں امریکی فضائی حملوں کی مدد سے کُرد فورسز نے شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں کو داعش کے قبضے سے آزاد کرا لیا ہے۔

امریکا کی جانب سے مذکورہ اعلان کو ایک وفادار اتحادی سے دستبرداری کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

شامی ڈیموکریٹک فورسز کے بیان میں مزید کہا گیا کہ 'ایسے حالات میں شام سے امریکی فوج کے انخلا کا فیصلہ عدم استحکام کی صورتحال پیدا کرتے ہوئے خطے میں سیاسی اور فوجی اثرات کو ختم کرکے عوام کو دشمن کے نرغے میں چھوڑ دے گا‘۔

اس حوالے سے مقامی رہائشیوں کا کہنا تھا کہ کرد عہدیداران اور کمانڈروں نے رات میں ملاقات کی اور امریکی فیصلے پر ردعمل سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔

ملاقات میں زیر غور لائے گئے آپشنز میں 'ایس ڈی ایف' کے زیر انتظام کیمپوں میں قید مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے داعش کے جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کے ہزاروں افراد کو رہا کرنے کا آپشن بھی زیرِ غور آیا۔

یہ واضح نہیں کہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا گیا یا نہیں جبکہ ایس ڈی ایف کمانڈرز سے اس حوالے سے تبصرہ کرنے کے لیے فوری طور پر رابطہ نہیں ہوسکا۔

کُرد صحافی ارن شیخموس کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس خوفزدہ ہونے کا ہر حق ہے‘۔

ترک صدر رجب طیب اردوان کئی بار کردوں پر حملہ کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں لیکن حالیہ چند دنوں میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد اس حملے کا آغاز کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔

ترکی کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کُرد فورسز کو شامی صدر بشارالاسد، ایران اور روس سے مزید قریب کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا کا شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ

یورپ میں مقیم شامی کرد شخص ابراہیم ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’ایسا ممکن ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ایسا حقیقت میں ہوتا ہے تو یہ صرف کُرد یا شام کے عوام کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جمہوریت اور اخلاقیات کے ساتھ بھی غداری ہے، یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنے لیے لڑے لیکن ہم دنیا بھر کی جمہوریتوں کے لیے بھی لڑے‘۔

واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوج واپس بلانے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’واشنگٹن کا دمشق سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے‘۔

ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ’داعش سے مقابلے میں مکمل کامیابی پر تحفظات ہیں، تاہم مجموعی طور پر امریکا کے صدر کی مکمل حمایت کرتا ہوں‘۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ’ہمیں تاحال شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ممکن ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں