اسلام آباد: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے جبری گمشدگیوں کے خلاف افراد کے تحفظ کے حوالے سےپیش کردہ بل میں ترمیم کی تجاویز پیش کردیں۔

این سی ایچ آر کے رکن چوہدری محمد شفیق نے بل کا جائزہ لینے کے لیے ایک گروپ اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو فوری طور پر تمام اقسام کی جبری گشدگیوں کے تحفظ کے بین الاقوامی کنوینشن پر دستخط کرے اور اس کی توثیق کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا طویل عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو علیحدہ جرم قرار دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: جبری گمشدگی کو قانونی جرم قرار دیا جائے گا، ڈاکٹر شیریں مزاری

اجلاس میں ہونے والی گفتگو کو مقصد پیش کردہ مسودے میں خلا کی نشاندہی کرنا اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک جامع قانون سازی کی تجویز دینا تھا۔

اس موقع پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان، قانونی ماہر شرافت علی چوہدری، ریسرچ سوسائٹی برائے بین الاقوامی قانون کی جانب سے محترمہ مناہل صاحبہ اور دیگر نے شرکت کی۔

این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ قانونی مسودے کے مختلف اجزا پر تفصیلی غور کیا گیا اور مختلف معاملات مثلاً مجرموں کے مقدمات، سزا، معاضے، متاثرین کی بحالی، اور ٹریبونل کا قیام اور اس کا کام کا طریقہ کار زیر گفتگو آیا۔

مزید پڑھیں: 'لاپتہ افراد کمیشن، گمشدگیوں میں ملوث اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام'

علاوہ ازیں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف علیحدہ قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے یا اسے پاکستان پینل کوڈ میں ہی ترمیم کر کے دائرہ کار میں لایا جاسکتا ہے۔

اجلاس کے سربراہ چوہدری محمد شفیق نے شرکا کو بتایا کہ قانون کا مسودہ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے زیر غور ہے اور این سی ایچ آر اس سلسلے میں اپنی تجاویز پیش کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ذمہ داریاں پاکستان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ جبری گمشدگیوں کو مجرمانہ افعال میں شامل کیا جائے۔

بلوچستان کی رکن فضیلہ علیانی کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بلوچستان میں حکومت کے لیے انتہائی گھمبیر نوعیت کا حامل ہے جہاں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پارلیمنٹ میں آج تک لاپتا افراد سے متعلق کوئی قانون سازی نہیں ہوئی'

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مضبوط اور موثر قانونی فریم ورک تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

اجلاس میں جبری گمشدگیوںمیں مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کےملوث ہونے کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور اراکین نے مطالبہ کیا کہ جو بھی اس میں ملوث ہوں ان کے خلاف فوجی عدالتوں کے بجائے قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔

علاوہ ازیں قانون کی عملداری اور طریقہ کار پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کسی شخص کے جبری طور پر گمشدہ ہونے پر پہلے پولیس سے رابطہ کیا جائے اور ٹربیونل یا کمیشن کو آزاد انکوائری اور تحقیقات کے اختیارات سے لیس ہونا چاہیے۔


یہ خبر 28 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں