ڈی ایچ اے شہدا کو ڈھال بنا کر کاروبار چلاتی ہے، چیف جسٹس

01 جنوری 2019
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار —فائل فوٹو
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار —فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) اور ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے درمیان تمام معاہدے کالعدم قرار دے دیے۔

ساتھ ہی عدالت نے متاثرین کو کچھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکم دیا کہ ایڈن ہاؤسنگ کی جانب سے فروخت کیے گئے 11 ہزار پلاٹس کو ڈی ایچ اے 5 سال میں تعمیر کرکے دے گا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایڈن ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایڈن گارڈن ہاؤسنگ اسکیم میں 11 ہزار 7سو 16 لوگ متاثر ہوئے اور اس کے نام پر لاہور کے 60 ہزار لوگوں کو لوٹ لیا گیا جبکہ جو اس اسکیم کے پیچھے تھے وہ 13 ارب روپے لوٹ کر بھاگ گئے۔

مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے لاہور فراڈ کیس: ’یتیموں اور بیواؤں کے پیسے لوٹے گئے‘

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے متاثرین کے حقوق کا ازالہ کرنا ہے، لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حقوق کیسے متاثر ہورہے ہیں، عدالت نے متاثرین کو حق دلوانے کے لیے بہت کام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ ڈی ایچ اے کے نام پر لوگوں نے دھوکا کھایا ہے، انسانی حقوق سیل میں اس دھوکے سے متعلق ایک لاکھ 9 ہزار سے درخواستیں آئی ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے سماعت کے دوران کچھ دیر کا وقفہ کردیا، جب وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو ڈی ایچ اے کے وکیل نے اپنے موکل کا دفاع کیا اور کہا کہ اس منصوبے میں ان کا شامل ہونا محدود تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ 25 ہزار کینال کا منصوبہ تھا، ڈی ایچ اے نے اپنا نام منصوبے میں 30 فیصد شیئر کے عوض فروخت کیا‘۔

تاہم وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ کیا ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانا فوج کا کام ہے؟ کس ملک کی فوج ہاؤسنگ اسکیمز چلا رہی ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کا کام ہے کہ وہ سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرے نہ کہ کمرشل سرگرمیوں میں حصہ لے۔

انہوں نے کہا کہ کیا ڈی ایچ اے نے یہ ہمارے شہدا کے لیے کیا، ڈی ایچ اے شہدا کے لیے کچھ کرتا تو یہ الگ بات تھی۔

اس موقع پر انہوں نے پھر استفسار کیا کہ کیا کسی اور ملک کی فوج یہ کرتی ہے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے نمائدہ ڈی ایچ اے نے بتایا کہ ملائیشین فوج ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کام کرتی ہے۔

نمائندے کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے صرف ایک ہی ملک کی فوج کا ماڈل اپنا لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب جب آپ ہاؤسنگ اسکیموں میں گئے آپ کا نام خراب ہوا، آپ نے جو زمینیں خریدیں وہ متنازع تھیں اور ایسا کرکے آپ نے اپنی ساکھ بھی بیچ دی۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ آپ لوگ (ڈی ایچ اے) بیواؤں اور شہیدوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے اپنا کاروبار چلاتے ہیں اور ان کے نام پر رائلٹی لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہی حکم دے دیتے ہیں کہ ڈی ایچ اے زمین حاصل کرے اور ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کے متاثرین کو 3 ماہ میں پلاٹس دیے جائیں اور جو واجب الادا رقم بنتی ہے اس کی ادائیگی کی جائے۔

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایڈن ہاؤسنگ نے جتنی اراضی دی اس کی ادائیگی ہونی چاہیے اور جائز رقم کا تعین کر کے اس کی ادائیگی کرنی ہوگی۔

بعد ازاں عدالت نے ڈی ایچ اے اور ایڈن گارڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے درمیان تمام معاہدے کالعدم قرار دے دیے، ساتھ ہی عدالت نے معاملہ حل کرنے کے لیے عملدرآمد بینچ بنانے کا عندیہ دے دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ خورد برد کے الزام میں نیب کے زیر حراست ملزمان متعلقہ فورم سے رجوع کریں جبکہ ایڈن ہاؤسنگ کی جانب سے فروخت کی گئی 11 ہزار فائلوں کو ڈی ایچ اے 5 سال میں تعمیر کرکے دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم

خیال رہے کہ ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کا الزام ہے کہ گروپ کے مالک ڈاکٹر امجد اور دیگر نے 10 ہزار سے زائد افراد کے ساتھ دھوکا دہی کی۔

نیب کی درخواست کے باوجود ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نام شامل نہ ہونے کے باعث اپریل 2017 میں ڈاکٹر امجد اور ان کے دنوں بیٹے کینیڈا فرار ہوگئے تھے۔

بعد ازاں اس کیس میں متاثرہ افراد کو معاوضہ ملنے میں ناکامی کے بعد مارچ 2018 میں نیب نے ایڈن ڈیولپرز کے تمام ہاؤسنگ منصوبوں کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا۔

ستمبر 2018 میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس کیس میں ملوث ہونے کے الزام میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے داماد ڈاکٹر مرتضیٰ امجد کو گرفتار کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں