امریکا، اسرائیل اقوام متحدہ کے ادارے یونسیکو کی رکنیت سے دستبردار

01 جنوری 2019
یونیسکو نے 2011 میں فلسطین کو رکنیت دی تھی—فائل/فوٹو:اے پی
یونیسکو نے 2011 میں فلسطین کو رکنیت دی تھی—فائل/فوٹو:اے پی

امریکا اور اسرائیل اقوام متحدہ کے ادارے ایجوکیشنل،سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (یونیسکو) کی رکنیت سے باقاعدہ طور پر دستبردار ہوگئے۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق یونیسکو کی رکنیت سے دستبرداری کا عمل ایک سال قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب ادارے پر اسرائیل مخالف کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ امریکا جنگ عظیم دوم کے بعد قائم ہونے والے یونسیکو کا شریک بانی ہے لیکن اب رکنیت سے دستبردار ہونے سے ادارے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اکتوبر 2017 میں یونیسکو کو چھوڑنے کا نوٹس دیا تھا جس کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی ان کی پیروی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:مشرق وسطیٰ کی افراتفری عالمی امن کیلئے خطرہ، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ

یونیسکو نے امریکا اور اسرائیل کی جانب سے لگائے گئے جانب داری کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا تھا جبکہ 2011 میں مشرقی یروشلم میں اسرائیلی قبضے پر تنقید کرتے ہوئے فلسطین کو رکنیت سے نواز دیا تھا۔

امریکا نے مطالبہ کیا تھا کہ ادارے میں ‘بنیادی اصلاحات’ لائی جائیں کیونکہ یونسیکو دنیا بھر میں تاریخی ورثے اور روایات کے تحفظ کے لیے جانا جاتا ہے۔

یونیسکو دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم میں بہتری، ہولوکاسٹ کی ہولناکیاں سے دنیا کو متعارف کرانا اور میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے۔

امریکا اور اسرائیل کی رکنیت ختم ہونے کے بعد ادارے کو مالی طور پر بھی بڑا نقصان ہوگا کیونکہ فلسطین کے حق میں ووٹنگ کے بعد 2011 سے دونوں ممالک نے فنڈنگ روک دی ہے۔

مزید پڑھیں:امریکا کا فلسطینی مشن کو بند کرنا خطرے کی گھنٹی ہے، ترکی

حکام کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق امریکا پر 600 ملین ڈالر کے مجموعی بجٹ سے 22 فیصد قابل ادا ہے اور ٹرمپ کی جانب سے دست برداری کے فیصلے کی ایک اہم وجہ اسی کو گردانا جاتا ہے۔

اسرائیل کی جانب یونسیکو کے ایک کروڑ ڈالر بقایاجات ہیں۔

یونیسکوکے موجودہ ڈائریکٹر جنرل اودرے آزولے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا جبکہ اودرے خود یہودی ہیں ہیں اور انہوں نے ہولوکاسٹ ویب سائٹ کا افتتاح کیا تھا اور اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ یہود مخالف اقدامات کی مدافعت کے لیے آگاہی مہم شروع کی تھی جس کو امریکا اور اسرائیل کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔

امریکا رواں سال اپریل میں ہونے والے یونیسکو ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس میں اپنی رکنیت کے حوالے سے نظر ثانی کرسکتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا اس سے قبل 1984 میں سابق صدر رونالڈ ریگن کے دور میں بھی یونیسکو کی رکنیت سے دستبردار ہوا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ ادارے میں انتظامی معاملات ٹھیک نہیں۔

ریگن اتنظامیہ نے یونیسکو پر الزام لگایا تھا کہ ادارے میں کرپشن ہے اور سویت یونین کے مفادات کو آگے بڑھایا جارہا ہے جس کے بعد 2003 میں امریکا ایک مرتبہ پھر یونیسکو کا حصہ بنا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں