سپریم کورٹ میں زیرسماعت اٹھارویں ترمیم کے تحت ہسپتالوں کے انتظام کی وفاق سے صوبوں میں منتقلی سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا اور چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ 34 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی وفاقی حکومت صوبے میں ہسپتال کیوں نہیں چلا سکتی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ہسپتالوں کے انتظام کی تحلیل سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت اتنی بے اختیار ہوتی ہے کہ صوبے میں ہسپتال نہیں بنا سکتی، اگر بنا سکتی ہے تو چلا نہیں سکتی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 34 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد وفاقی حکومت صوبے میں ہسپتال کیوں نہیں چلا سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ زید ہسپتال تو وفاقی حکومت کو تحفہ دیا گیا تھا اس موقع پر شیخ زید ہسپتال کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ابو ظہبی کے حکمران نے اس ہسپتال کو تحفے میں دیا تھا اور اس ہسپتال کے بارے میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت فنڈز مہیا کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:18ویں ترمیم کیس: رضا ربانی کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

حامد خان نے شیخ زید ہسپتال کے حوالے سے مزید کہا کہ 1994 میں ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے ہسپتال کو وفاقی وزارت صحت کے ماتحت کردیا گیا جبکہ ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں متحدہ عرب امارات کے حکمران بھی ہیں۔

میڈیکل کالجوں کے طلبا کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس وقت میڈیکل کالج کے طلبا کا مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت بذریعہ وفاقی حکومت اس ہسپتال کو فنڈ دے رہی ہے اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یہ ادارہ صوبے میں کیسے منتقل ہو سکتا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ شیخ زید ہسپتال تو ہمیں منتقل ہو چکا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آئین کے خلاف منتقل ہوا ہے تو پھر تو یہ غیر آئینی ہے، اگر بنیاد غلط ہے تو اس پر ساری تعمیر بھی غلط ہے۔

مزید پڑھیں:پارلیمنٹ میں 18ویں آئینی ترمیم پر بحث نہیں ہوئی، چیف جسٹس

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی ہسپتال جب وفاق کے زیر انتظام تھا تو اس کا بجٹ 70 ملین تھا اب 13 ارب روپے ہے اور مٹھی میں بھی این آئی سی وی ڈی سینٹر قائم ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران سینٹر رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جناح ہسپتال اور این آئی سی وی ڈی کو ریسرچ ہسپتال کے زمرے میں ڈال کر وفاق کو نہیں دیا جا سکتا، جناح ہسپتال میں ریسرچ صرف مریضوں اور دوائیوں کے ریکارڈ پر مشتمل ہے اور اصل تحقیق کے لیے کوئی رقم مختص نہیں۔

عدالت نے دلائل سننے کے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ کیس کی گزشتہ سماعت میں سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر میاں رضاربانی نے 18 ویں ترمیم کے حق میں دلائل دیے تھے۔

رضا ربانی نے سپریم کورٹ سے 18ویں ترمیم کے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی جس کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت 18ویں ترمیم کا جائزہ نہیں لے رہی بلکہ اس سے متعلق چند ہسپتالوں کی تحلیل کا مسئلہ عدالت کے سامنے ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں