اسلام آباد: ملک بھر میں یکساں تعلیمی میعار مقرر کرنے اور اس سلسلے میں نصاب کی تشکیل کے لیے ہونے والے قومی نصاب کونسل (این سی سی) کے پہلے باضابطہ اجلا س میں حکومت سندھ نے شرکت نہیں کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی ) کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا مقصد یہ بات بآور کروانا تھا کہ این سی سی کا اجلاس غیر ٓائینی تھا ،واضح رہے کہ نہ صوبائی وزیر تعلیم اور نہ ہی سیکریٹری تعلیم نے اجلاس میں شرکت کی۔

اس بارے میں پی پی پی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے تعلیم اور نصابی معاملات صوبوں کے دائرہ اختیار میں آچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے قومی نصاب کونسل بنانے کی ہدایت کردی

تاہم این سی سی کے اجلاس میں صوبہ سندھ کے نمائندوں کی شرکت کے بغیر ہی شرکا نے تعلیمی شعبے میں یکسانیت لانے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ اجلاس کا انعقاد وفاقی وزارت تعلیم نے کیا تھا جس میں تمام سرکاری، نجی اور مدارس سے تعلق رکھنے اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نےشرکا کو بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں ملک میں خوندگی کی شرح گھٹ کر 60 سے 58 فیصد ہوچکی ہے جبکہ 2 کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا قومی تعلیمی پالیسی فریم ورک 2018 کا اعلان

انہوں نے اس بات کی مذمت کی کہ ملک بچوں کو میعاری تعلیم فراہم کرنے اوریکساں نصاب بنانے میں ناکام ہوگیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے ملک بھر میں ایک ہی قومی سرٹیفکیشن ماڈل موجود ہو۔

اس موقع پر پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس کا کہنا تھا کہ سرکاری سطح پر نظامِ تعلیم کو بہتر کرنے کے جانب سے انتہائی کم توجہ دی گئی جس سے نجی تعلیمی اداروں کو فروغ ملا تاہم اب محکمہ تعلیم اس میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے کوشاں ہے۔

دوسری جانب تنظیم المدارس پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ مدارس حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن یکساں نظام ِ تعلیم کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں کیوں کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت سمیت تمام سابقہ حکومتیں اس سلسلے میں ناکام ہوچکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مدارس کو قومی دھارے میں لانا اولین ترجیح ہے، وزیر اعظم

اس سلسلے میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ناصر قصوری کا کہنا تھا کہ حکومت کو تعلیم میں میعار اور تخلیقی صلاحیت پر توجہ دینی چاہیے۔

دوسری جانب سماجی کارکن اور موسیقار شہزاد رائے نے بھی حکومت کی جانب سے اساتذہ کو تربیت فراہم کرنے کے منصوبے کی پرزور حمایت کی جو کہ بہت ضروری ہے۔

بلوچستان کے مشیر تعلیم کا کہنا تھا کہ تعلیمی شعبے میں سلسلہ وار تبدیلیاں لانا چاہیےجبکہ حیدرآباد کے بورڈ برائے ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیم کے چیئرمین ڈاکٹر محمد میمن کا کہنا تھا کہ حکومت کو این سی سی فریم ورک تشکیل دینا چاہیے۔

مزید پڑھیں: سندھ اور کے پی کی قومی نصاب کونسل کے قیام کی مخالفت

اس سلسلے میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی جو سرکاری جامعات کی نمائندگی کررہے تھے، نے کہا کہ نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے نجی شعبے کو حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔


یہ خبر 10 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں