امریکا اور پاکستان کو اپنے اختلافات پر بھی ایمانداری کی ضروت ہے، امریکی سینیٹر

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2019
امریکا کو پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے — فوٹو: ڈان اخبار
امریکا کو پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے — فوٹو: ڈان اخبار

واشنگٹن: امریکی سینیٹ کے سینیئر رکن باب کیزے نے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی ضرورت پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’دونوں ممالک کو اختلافات پر ایمانداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘۔

اس حوالے سے سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ امور سینیٹر جین شاہین کا کہنا تھا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا اور پاکستان بہت اچھے دوست تھے تاہم گزشتہ چند سالوں میں یہ تعلقات سردگی کا شکار ہوگئے ہیں۔

سینیٹر شاہین جو امریکا کی پاکستان کے لیے پالیسیز میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، نے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت کا اعتراف کیا اور پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی سے امریکی سیاست میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: ’امریکا، پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی مضحکہ خیز کوشش کر رہا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلقات کو صحیح سمت میں لے جانے کا راستہ تلاش کریں تاکہ ہم ماضی کی طرح دوبارہ مضبوط اتحادی بن سکیں‘۔

انہوں نے یہ بیان پاک امریکا سیاسی ایکشن کمیٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

پاک امریکا سیاسی ایکشن کمیٹی کی تقریب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے دونوں سینیئر اراکین سمیت 20 قانون سازوں نے شرکت کی تھی۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں امریکی سینیٹر اور کانگریس مین پاکستان سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم پاکستانی تقریب میں امریکی قانون سازوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت حیرت انگیز مگر خوش آئند بات بھی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں

امریکی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے لیے رویے میں نرمی اس بات کا ثبوت ہے کہ واشنگٹن کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ افغان پالیسی تبدیل کرنے کی ان کی کوشش کام نہیں کر رہی جس کی وجہ سے وہ افغانستان میں 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کے تعاون کی طرف نگاہ ڈال رہے ہیں۔

امریکی سینیٹرز نے اعتراف کیا کہ ’دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں دہشت گردی یا دہشت گردوں کے حملوں سے اتنا نقصان ہوا ہو جتنا پاکستان کو ہوا ہے‘۔

واشنگٹن کی اسلام آباد سے ناراضگی کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کبھی کبھی سب ٹھیک ہوتا ہے اور جب کبھی ہم معلومات کا صحیح طرح تبادلہ نہیں کرپاتے تو تعلقات میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر صدر کو اختیار ہے کہ وہ باہمی تعلقات پر سوالات کرے، تاہم مجھے لگتا ہے کہ ہمیں دہشت گردوں کو شکست دینے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے‘۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 11 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں