ڈیموکریٹس نے شٹ ڈاؤن کے خاتمے کیلئے ٹرمپ کی پیشکش مسترد کردی

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2019
شہریوں کی اکثریت امریکی صدر کو شٹ ڈاؤن کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے — فائل فوٹو
شہریوں کی اکثریت امریکی صدر کو شٹ ڈاؤن کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے — فائل فوٹو

امریکا میں جاری جزوی شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے امریکی صدر کی پیشکش کو ایوان نمائندگان میں موجود ڈیموکریٹس نے مسترد کردیا۔

خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیشکش کی تھی کہ اگر میکسکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے مطلوبہ فنڈز منظور کردیے جائیں تو وہ امریکا میں آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو عارضی طور پر تحفظ فراہم کریں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پیشکش کو ’ کامن سینس کامپرومائز‘ قرار دیا تھا لیکن ڈیموکریٹس نے فوری طور پر ان کی پیشکش مسترد کردی تھی۔

امریکی شہریوں کی اکثریت کی جانب سے امریکی صدر کو شٹ ڈاؤن کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ پر وکیل کو کانگریس سے جھوٹ بولنے کی ہدایات دینے کا الزام

اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس کے ساتھ معاملات ایک قدم آگے بڑھیں تاکہ حکومت کا شٹ ڈاؤن ختم ہو اور جنوبی سرحد کا بحران ختم کیا جاسکے۔

ڈیموکریٹس پر دباؤ ڈالنے کی امید کے تحت وائٹ ہاؤس نے اس اعلان کو ایک اہم قدم قرار دیا تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ دیوار کے لیے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر فنڈ کی فراہمی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے تھے بلکہ انہوں نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف وفاقی عدالتوں کی کارروائیوں کو عارضی طور پر روکنے کی پیشکش کی تھی۔

ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی سے ایک ہفتے سے جاری جھڑپ کے بعد یہ واضح نہیں تھا کہ ٹرمپ کی پیشکش کے بعد 29 روز سے جاری شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں گے یا نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ فیصلہ اس لیے لیا گیا کیونکہ لاکھوں وفاقی ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں اور انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہے، شٹ ڈاؤن کی وجہ سے امریکی شہریوں کے لیے اکثر عوامی خدمات بھی دستیاب نہیں۔

ڈیموکریٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشکش کو ان کے رسمی کلمات سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔

اس حوالے سے نینسی پیلوسی نے کہا کہ ’ متوقع پیشکش ماضی میں مسترد کی گئی اکثر کوششوں کا مجموعہ تھا جنہیں منظور نہیں کیا جاسکتا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی شٹ ڈاؤن: ٹرمپ نے 'ورلڈ اکنامک فورم' میں وفد کی شرکت منسوخ کردی

انہوں نے بعد ازاں ٹوئٹ بھی کیا کہ ’صدر کی پیشکش میں حقیقت ہے جو اچھی نہیں ہے،پیشکش میں جو اچھا ہے وہ حقیقت نہیں‘۔

سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک اسکھومر نے اس پیشکش سے متعلق کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی تھی جنہوں نے انفرادی طور پر ان تارکین وطن کا مستقبل خطرے میں ڈالا تھا اور اب انہی کی مدد کی پیشکش کررہے تھے۔

نیویارک ڈیموکریٹ نے کہا کہ ’ شٹ ڈاؤن کا صرف ایک ہی حل ہے کہ حکومت کا آغاز کیا جائے، صدرِ ڈیموکریٹس اور ری پبلکن ایک سول تبادلہ خیال کی مدد سے دو طرفہ حل نکالیں۔

اس سے 2 روز قبل ڈیموکریٹس نے سرحد پر سیکیورٹی کے لیے لاکھوں ڈالر فراہم کرنے کا کہا تھا لیکن ٹرمپ کو اس پیشکش سے آگاہ کرنا ہی تھا کہ وہ اپنا مںصوبہ لےکر آگئے۔

2 فریقی حل سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے سے متعلق اعلیٰ سطحی ڈیموکریٹس سے بات چیت کررہے ہیں لیکن ڈیموکریٹس نےواضح کیا کہ ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ سینیٹ میں اکثریتی رہنما مچ میک کونل رواں ہفتے اس پیشکش پر رائے شماری کروائیں گے تاہم ڈیموکریٹس کی جانب سے اسے بلاک کروائے جانے کے امکانات ہیں۔

اس سے قبل میک کونل سینیٹ میں بل پر وقت تک رائے شماری نہیں ہوگی جب تک ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹس اس پر رضامند نہیں ہوجاتے۔

ٹرمپ کے منصوبے پر سینیٹ کی جانب سے 60 ضروری ووٹ حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

ڈیلاویئر کے ڈیموکریٹ رکن کی جنہیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے امیگریشن مذاکرات کا متوقع شراکت دار سمجھا جاتا تھا انہوں نے حمایت سے انکار کردیا ہے۔

دوسری جانب الاسکا کی لیزا مورکوسکی کا کہنا تھا کہ وہ پیش کیے گئے مںصوبے کی تفصیلات پڑھیں گی لیکن انہوں نے ووٹ دینے پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔

مزید پڑھیں: شٹ ڈاؤن جاری، وائٹ ہاؤس میں دعوت پر فاسٹ فوڈ پیش، بل ٹرمپ نے ادا کیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ شٹ ڈاؤن اب ختم ہونے کی ضرورت ہے‘۔

امریکی حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤں جاری رہنے کی وجہ سے دوسری مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈپلومیٹک روم سے قوم سے خطاب کیا۔

اس موقع پر انہوں نے ایک سفارتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے درمیانی حل نکال کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

وہ اس بات پر قائم ہے کہ ملک میں جرائم اور منشیات کے داخلے کو روکنے کے لیے ایک سرحدی رکاوٹ کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے 2 ہزار میل طویل کنکریٹ ڈھانچے کے بجائے ترجیحی مقامات پر اسٹیل کی رکاوٹیں لگانے کا کہا‘۔

بعض تنقیدی حلقوں کی جانب سے امریکی صدر کی اس پیشکش پر تنقید کی گئی جن میں نمبرز یو ایس اے بھی شامل ہے،جو امریکا میں قانونی اور غیر قانونی امیگریشن میں کمی چاہتے ہیں۔

گروپ کے صدر رائے بیک کا کہنا تھا کہ ’صدر کی پیشکش ان امریکی ورکرز کی ہار جن سے مہم کے دوران وعدے کیے گئے تھے‘۔

سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی امریکی صدر کی پیشکش پر تنقید کی گئی، امریکن سول رائٹس لبرٹیز یونین کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انتھونی رومیرو نے اسے ’ یک طرفہ پیشکش ‘ قرار دیا۔

امریکی تجزیہ کار اور ناقد این کاؤلٹر نے ٹوئٹ کیا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے ایمنسٹی کی پیشکش کی ہے‘۔

انہوں نے 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حریف جیب بش کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ’ ہم نے ٹرمپ کو ووٹ دیا اور ہمیں جیب بش ملے‘۔

صحافیوں کو میڈیا بریفنگ میں امریکا کے نائب صدر مائیک پنس نے اس پیشکش پر کی گئی تنقید کے دفاع میں کہا کہ ’ یہ ایک ایمنسٹی بل نہیں ہے‘۔

وائٹ ہاؤس کے نگران چیف آف اسٹاف مک ملاوانے نے کانگریس کے ڈیموکریٹس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ منگل کو اگلی وفاقی تنخواہ کی ڈیڈلائن اور اسی دن مک کونیل اس بل پر قانونی کارروائی کا آغاز کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’ اگر منگل(22 جنوری ) کو بل ناکام ہوجاتا ہے تو لوگوں کو تنخواہ نہیں ملے گی‘۔

خیال رہے کہ امریکا کی تاریخ کے طویل ترین شٹ ڈاؤن کا آغاز 22 دسمبر 2018 کو ہوا تھا، جو میکسکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے کانگریس کی جانب سے فنڈز نہ جاری کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹس کے درمیان پیدا ہونےوالی رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔

کانگریس نے امریکی صدر کے مطالبے پر دیوار کی تعمیر کے لیے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر فنڈز کے اجرا کی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا جس کی پاداش میں ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی اداروں کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ پر دستخط کرنے سے انکارکردیا تھا۔

بجٹ جاری نہ ہونے کی وجہ سے فیڈرل بورڈ آف انویسٹی گیشن (ایف بی آر) کے ایجنٹس، ایئر ٹریفک کنٹرولر اور میوزیم کے ملازمین اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔

چند روز قبل حکومتی شٹ ڈاؤن کی وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے دورے پر آنے والی فٹ بال ٹیم کے لیے ذاتی طور پر خالص امریکی برگر اور پیزا آرڈر کیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں