سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی کا جائے وقوع کا دورہ، ملوث اہلکاروں کی شناخت

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2019
جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں—فائل فوٹو
جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں—فائل فوٹو

ساہیوال میں پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ’مشکوک آپریشن‘ اور 4 افراد کی ہلاکت کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے جائے وقوع کا دورہ کیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) اعجاز شاہ کی سربراہی میں ساہیوال میں جائے وقوع کا دورہ کیا۔

دورے کے دوران ٹیم نے جائے وقوع کا معائنہ کیا اور لوگوں سے پوچھ گچھ کی، اس موقع پر ٹیم میں لاہور اور ساہیوال پولیس کے اراکین شامل تھے۔

واضح رہے کہ اس جے آئی ٹی میں انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے بھی شامل ہیں اور یہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو ارسال کرے گی۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، وزیر اعظم

دوسری جانب ساہیوال واقعے میں 4 کار سواروں پر فائرنگ اور ہلاکت کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش بھی جاری ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ساہیوال واقعے کی موبائل ویڈیوز کے ذریعے تحقیقات میں مدد لی جارہی ہے جبکہ آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جارہے ہیں جبکہ ان اہلکاروں کو حراست میں لے کر چونگ ٹریننگ سینٹر میں رکھا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ساہیوال واقعے میں متاثرہ بچوں کے دیے گئے بیانات کو بھی شامل تفتیش کیا جا رہا ہے جبکہ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری بیانات کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا جائے گا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی منگل تک اپنی تحقیقات مکمل کرکے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو رپورٹ پیش کرے گی اور جے آئی ٹی سربراہ کی جانب سے نامزد کردہ تفتیشی افسر یہ رپورٹ دے گا۔

سی ٹی ڈی اہلکاروں کی شناخت ہوگئی

متنازع ساہیوال مقابلے میں حصہ لینے والے سی ٹی ڈی اہلکاروں کی شناخت ہوگئی ہے اور اس آپریشن کو سب انسپکٹر صفدر حسین نے لیڈ کیا تھا۔

سی ٹی ڈی تھانے میں ساہیوال آپریشن پر سب انسپکٹر صفدر حسین کی مدعیت میں ایک اور مقدمہ درج کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ آپریشن کے وقت ٹیم انچارج صفدر حسین تھے جبکہ ان کے ہمراہ کارپورل احسن، رمضان، سیف اللہ اور حسنین ہمراہ تھے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق کار سواروں کی جانب سے پر فائرنگ کی گئی تھی۔

قبل ازیں سانحہ ساہیوال پر ساہیوال بار ایسوسی ایشن کے وکلا کی جانب سے ہڑتال کی گئی اور عدالتوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔

وکلا کی جانب سے واقعے کی شدید مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ مشکوک مقابلے میں ملوث اہلکاروں کو نشان عبرت بنایا جائے۔

جوڈیشیل تحقیقات کیلئے عدالت میں درخواست

علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ میں ساہیوال واقعے پر جوڈیشیل تحقیقات کروانے لیے درخواست دائر کردی گئی۔

یہ درخواست صفدر شاہین پیرزادہ کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں پنجاب حکومت، محکمہ انسداد دہشت گردی اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا۔

درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ ساہیوال میں بچوں کے سامنے نہتے والدین کو قتل کردیا گیا، حکومت کو سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے کمیشن تشکیل دینا چاہیے تھا۔

عدالت میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ حکومت جے آئی ٹی بنا کر بری الذمہ ہوگئی، لگتا ہے حکومت ساہیوال واقعے کی شفاف تحقیقات نہیں چاہتی۔

انہوں نے عدالت نے استدعا کی کہ حاضر سروس جج کی سربراہی میں ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے اور ملزمان کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے۔

ساہیوال واقعہ

خیال رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

مزید پڑھیں: ذیشان دہشت گرد نہیں تھا، لواحقین کا وزیرقانون کے بیان پر احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجا بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں