لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال پر آئی جی پنجاب کو طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2019
عدالت میں درخواست گزار نے معاملے کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے غیر جانب دار انکوائری کا مطالبہ کیا۔ — فائل فوٹو
عدالت میں درخواست گزار نے معاملے کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے غیر جانب دار انکوائری کا مطالبہ کیا۔ — فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل انکوائری کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب امجد جاوید سلیمی کو طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ پنجاب پولیس نے ہفتے کے روز جعلی انکاؤنٹر میں 4 افراد کو قتل کردیا تھا جس میں ایک جوڑا خلیل اور نبیلہ، ان کی جواں سالہ بیٹی اریبہ، اور پڑوسی ذیشان شامل تھا۔

سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیوز اور عینی شاہد اور مقتول جوڑے کے دیگر 3 بچوں کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں سی ٹی ڈی اہلکاروں پر سخت تنقید کی گئی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال:’جے آئی ٹی رپورٹ میں نئے اور پرانے پاکستان کا فرق دکھائی دے گا‘

پنجاب حکومت کے مطابق مقتول ذیشان کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش سے تھا اور وہ دہشت گردوں کے ساتھ کام کر رہا تھا جبکہ ہلاک ہونے والے دیگر افراد کو ’کولیٹرل ڈیمیج‘ قرار دیا گیا۔

واقعے کے بعد آپریشن میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی جبکہ معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقیاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے احکامات کے پیش نظر آپریشن میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں میاں آصف محمود کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی جے آئی ٹی اصل حقائق تلاش نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کی زندگی کا مسئلہ ہے اور ہائیکورٹ کے پاس تحقیقات کا دائرہ اختیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس مقابلے کے بارے میں تحقیقات کے لیے کمیشن بنانا چاہیے تھا جبکہ انہوں نے جے آئی ٹی بنا کر خود سے ذمہ داری اتاری ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت ساہیوال کے معاملے پر شفاف انکوائری نہیں چاہتی اور انہوں نے عدالت سے موجودہ جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جو معاملے پر نظر رکھیں اور قصور واروں کو ان کے انجام تک پہنچائیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پنجاب پولیس کے اسٹیٹسٹکس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انہوں نے 2017 میں 247، 2018 میں 91 اور 2019 کے پہلے ماہ میں 7 انکاؤنٹر کیے ہیں۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیر اعظم کی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے احکامات جاری کیے جائیں تاکہ معاملے کی غیر جانبدار انکوائری کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال:'فائرنگ کرنے والوں سے زیادہ قصور وار غلط اطلاع دینے والے ہیں'

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی مذکورہ واقعے سمیت دیگر جعلی انکاؤنٹرز کی تفصیلی رپورٹ تیار کرنے اور پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

انہوں نے صوبائی پولیس سربراہ کو اپنے اہلکاروں کو پر کھلے عام فائرنگ کرنے سے روکنے اور آٹومیٹک اسلحہ فراہم نہ کرنے کے احکامات دینے کی استدعا کی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو ساہیوال سانحہ کے متاثرین کے لیے معاوضہ دیا جانا چاہیے اور واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو ریپ اور قتل ہونے والی زینب امین کے کیس کی طرح 90 روز میں ان کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم احمد نے ریمارکس دیے کہ صرف وفاقی حکومت کے پاس کمیشن قائم کرنے کا اختیار ہے۔

دوران سماعت حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت کر بتایا کہ معاملے پر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کردی گئی ہے اور حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

عدالت نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے آئی جی پی جاوید سلیمی کو 24 جنوری کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔

تبصرے (0) بند ہیں