کراچی: شادی ہال مالکان نے ہال بند کرنے کی کال واپس لے لی

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2019
احتجاج کے باعث اطراف میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا—فوٹو: ڈان نیوز
احتجاج کے باعث اطراف میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کی شادی ہالز ایسوسی ایشن نے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کی مداخلت پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی جانب سے ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پر احتجاجاً شہر بھر کے تمام شادی ہال بند کرنے کا اعلان واپس لے لیا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت کابینہ کا اجلاس ہوا جس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیربلدیات سعید غنی نے کہا کہ شادی ہال مالکان کی ہڑتال پر فوری طور پر نوٹس لیا گیا اور ایس بی سی اے کی جانب سےشادی ہال کو جاری نوٹس فوری طور پر واپس لینے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو پریشانی میں نہیں دیکھ سکتے، سپریم کورٹ نے 30 دن میں رپورٹ جمع کروانے کا کہا ہے اور ممکن ہے کہ چند عمارتوں کو ان کی اصل صورت میں بحال کر دیں لیکن کسی عمارت کو گرانا ممکن نہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ ہماری یقین دہانی پر شادی ہالز مالکان نے ہڑتال ختم کر دی ہے جبکہ شہر میں غلط فہمی کی بنیاد پر صورت حال پیدا ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ معاملے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور کراچی میں 930 پلاٹس پالیسی کے تحت رہائشی سے کمرشل اسٹیٹس پر منتقل ہوئے اور عدالت عالیہ نے بھی اس پالیسی کو تسلیم کیا تھا۔

وزیر بلدیات سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اس معاملے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرے گی اور پیر کو شادی ہالز کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے معاملے سے متعلق کمیٹی تشکیل دے دی جو ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز پاکستان (آباد) سے رابطے میں ہے اور ملاقات بھی کرے گی۔

قبل ازیں کراچی میں شادی ہال مالکان نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مرکزی دفتر سوک سینٹر کے باہر دھرنا دے دیا تھا۔

ایس بی سی اے کی جانب سے شادی ہالز کے خلاف کارروائی کے نوٹسز پر شادی ہال مالکان اور ملازمین نے سوک سینٹر پر احتجاج کیا اور قانونی کمرشل شادی ہالز کو غیر قانونی قرار دینے پر شدید نعرے بازی کی اور نوٹس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: رہائشی گھروں کی تجارتی مقاصد میں تبدیلی پر پابندی، غیرقانونی تعمیرات گرانے کا حکم

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں ایس بی سی اے نے شہر کے ضلع شرقی اور وسطی میں 50 فیصد پلاٹس پر تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

اس نوٹس میں 3 روز کا وقت دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ پیر (28 جنوری) سے ایس بی سی اے ایسی سرگرمیوں کے خلاف آپریشن شروع کرے گی۔

اسی نوٹسز کے خلاف شادی ہال مالکان نے سوک سینٹر پر ایس بی سی اے کے دفتر پر احتجاج کیا اور سڑک کو آمد و رفت کے لیے معطل کردیا۔

شادی ہال مالکان کے احتجاج کے باعث حسن اسکوائر سے پرانی سبزی منڈی جانے والی یونیورسٹی روڈ بند ہوگئی، جس کے باعث بدترین ٹریفک جام ہوگیا۔

دوسری جانب آل کراچی شادی ہال ایسوسی ایشن کے صدر رانا رئیس احمد کا کہنا تھا کہ یہ تمام شادی ہال راتوں رات نہیں بنے اور نہ ہی یہ کوئی غیر قانونی شادی ہال ہیں، ہم نے ان کی لیزنگ کے لیے لاکھوں اور کروڑوں روپے کی فیسز جمع کرائی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں ایسا نہیں کہا گیا کہ تمام شادی ہال ختم کردیے جائیں لیکن اس کے باوجود ایس بی سی اے نے کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔

رانا رئیس کا کہنا تھا کہ ایس بی سی اے نے پہلے خود این او سی جاری کیا جبکہ اب ہمیں نوٹسز دیے گئے کہ پیر (28 جنوری) سے تمام شادی ہال توڑ دیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ شادی ہال توڑنے سے پہلے کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا، لہٰذا ہم کل سے ہی تمام شادی ہال بند کر رہے ہیں اور کل کی تمام تقاریب منسوخ سمجھی جائیں۔

ادھر شادی ہال مالکان کے احتجاج پر ایس بی سی اے کی جانب سے بات چیت کی کوشش کی گئی اور ہال ایسوسی ایشن کی 4 رکنی ٹیم نے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کمیٹی سے ملاقات کی۔

لیکن کچھ دیر تک دونوں فریقین میں بات چیت ہونے کے بعد ابتدائی طور پر مذاکرات ناکام ہوگئے اور ہال مالکان نے شادی ہال بند کرنے کا فیصلہ برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے رہائشی پلاٹس پر تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے عائد کی گئی پابندی کے بعد ایس بی سی اے نے معاملات کو دیکھنے کے لیے جمیل الدین احمد کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی بنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 22 جنوری کو شہر میں رہائشی پلاٹس، گھروں اور عمارتوں کی تجارتی مقاصد کے لیے تبدیلی پر پابندی عائد کردی تھی اور ساتھ ہی حکم دیا تھا کہ کوئی گھر گرا کر کسی قسم کا کمرشل استعمال نہ کیا جائے۔

ساتھ ہی عدالت نے کراچی کو 40 سال پہلے والی حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ جو عمارت ماسٹر پلان سے متصادم ہے، اسے گرادیں، چاہے کتنی عمارتیں ہوں سب گرا دیں۔

جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے رہائشی پلاٹوں پر شادی ہال، شاپنگ سینٹرز، پلازوں کی تعمیر پر بھی پابندی عائد کرتے ہوئے 30 سے 40 سال کے دوران بننے والے شادی ہال، شاپنگ سینٹرز اور پلازوں کی تمام تر تفصیلات طلب کرلی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ بندوق اٹھائیں، کچھ بھی کریں عدالتی فیصلے پر ہر حال میں عمل کریں اور پارک، کھیل کے میدان اور ہسپتال کی تمام اراضی وا گزار کروائی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں