لاپتہ افراد کے مقدمات سول عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2019
فیصلہ وزیر اعظم کی زیر صدارت انسانی حقوق کے اجلاس میں کیا گیا—فوٹو: پی آئی ڈی
فیصلہ وزیر اعظم کی زیر صدارت انسانی حقوق کے اجلاس میں کیا گیا—فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت جو لوگ شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے انسانی حقوق کے اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتہ کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: لاپتا افراد کا معاملہ: ’پیش رفت نہ ہونے پر پولیس افسران کو جیل بھیجیں گے‘

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ’اس فیصلے کے بعد جو لوگ شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان کے خلاف سول عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا‘۔

خیال رہے کہ لاپتہ افراد اور جبری گمشدیوں کا معاملہ سابق حکومتوں کے لیے ایک چیلنجنگ ٹاسک تھا کیونکہ اس لاپتہ افراد کی فہرست مسلسل ابھرتی جاری رہی تھی۔

تنازع زدہ قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں رہنے والے لوگ جبری گمشدگیوں سے متعلق شکایات کرتے نظر آرہے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے اس مسئلے پر ایک ٹھوس موقف اپنایا گیا تھا اور اس معاملے کو کئی مرتبہ اٹھایا گیا تھا، ان کا دعویٰ تھا کہ ’لاپتہ افراد کو خفیہ اداروں کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے، اس طرح انہیں قانون کی عدالت میں اپنا دفاع کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی‘۔

دوسری جانب گزشتہ برس 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پارلیمنٹ میں آج تک لاپتہ افراد سے متعلق کوئی قانون سازی نہیں ہوئی'

یہ 47 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ ( جو ابھی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) نے اسلام آباد کے علاقے ایف 10 میں گھر سے اغوا ہونے والے لاپتا آئی ٹی ایکسپرٹ کے کیس میں تحریر کیا تھا، جس میں جبری گمشدگیوں میں ملوث حکام کے لیے سخت نتائج وضع کیے تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے محمود کی بازیابی میں کرمنل جوڈیشل سسٹم کی ناکامی کے لیے کچھ حکومتی اداروں کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور ان پر جرمانہ کیا تھا، ساتھ ہی فیصلے میں خفیہ اداروں پر ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا اور وفاقی حکومت کو لاپتا افراد کے اہل خانہ کے ماہانہ اخراجات برداشت کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ لاپتا افراد کے کمیشن کے مطابق انہوں نے 30 نومبر تک 5ہزار 6سو 8 کیسز میں سے 3 ہزار 4سو 92 نمٹا دیے۔ کمیشن کوگزشتہ برس 31 اکتوبر تک 5 ہزار 5سو 7 کیسز جبکہ نومبر تک مزید 111 کیسز موصول ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں