یہ مارننگ شوز کون چلا رہا ہے؟

اپ ڈیٹ 13 فروری 2019
ایک مارننگ شو کی سالگرہ کی تقریب کا منظر — اسکرین شاٹ
ایک مارننگ شو کی سالگرہ کی تقریب کا منظر — اسکرین شاٹ

صبح سویرے ٹی وی دیکھنے کے لیے بیٹھے اور اگر آپ کسی مارننگ شو کو دیکھنے کی ہمت کرلیں تو آپ کو سرخ جوڑے میں ملبوس ایک دلہن نظر آئے گی، ایک بیوٹیشن موجود ہوگی جو یہ دعویٰ کررہی ہوگی کہ وہ 'دلہن کی مونچھیں' صاف کردے گی۔

آگے بڑھیں تو مزید 20 مشہور بیوٹیشن بننے کی خواہشمند خواتین موجود ہوں گی جو مقابلہ حسن جیسے کسی شو کا حصہ بننے کی خواہش رکھنے والی خواتین کے میک اپ میں مصروف ہوں گیں۔

دوسرے چینلز دیکھیں گے تو وہاں خواتین بھاری کام سے مزئین ملبوسات زیب تن کیے ہوئے نظر آئیں گی۔

آپ کو یقیناً چند مرد و خواتین ایسے بھی نظر آئیں گے جو ان مارننگ شوز میں ہونے والی شادیوں کا حصہ ہوں گے، جو شور شرابا کررہے ہوں گے، ہنس رہے ہوں گے، جبکہ گانوں پر رقص بھی ہورہا ہوگا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی مارننگ شوز کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے

جبکہ اس دوران دلہا دلہن بھی موجود ہوں گے جو مسکراتے ہوئے اپنی زندگی کے نئے آغاز کی تیاری کررہے ہوں گے، لیکن آپ کے لیے یہ سب پریشان کن شاید اس لیے ہوگا کیوں کہ آپ نے شاید ایک ماہ قبل ہی اس نوبیاہتا جوڑے کو کسی دوسرے چینل پر آنے والے مارننگ شو میں بھی شادی کرتے دیکھا ہوگا، جبکہ شادی میں آنے کچھ مہمان بھی وہی ہوں گے۔

مارننگ شو کی ٹیم میں موجود یہ اداکار ہر دوسرے شو پر نظر آتے ہیں، جہاں یہ شادیوں میں رقص، روتے، ہنستے اور بار بار ہونے والی شادیوں کا حصہ بنتے آرہے ہیں۔

کسی دوسری صبح آپ ان ہی مارننگ شوز میں میزبان کو سیاہ رنگ کے کپڑوں میں ملبوس پائیں گے جو اپنے شو پر ایسے مہمان مدعو کریں جن پر کسی بلا کا سایہ ہو جبکہ اسے اتارنے کے لیے شو میں ’بابا‘ بھی موجود ہوں۔

ایسا بہت کچھ ہمارے مارننگ شوز میں دیکھا جاتا ہے جہاں گہری رنگت والی لڑکیوں کو حبشی کہا جاتا ہے جبکہ 'ڈاکٹرز' انہیں رنگ گورا کرنے کی ترکیب بتاتے ہیں، آلو اور کھیرے کا لیپ بھی ہرے پر کیا جاتا ہے۔

اس بےحسی کو دیکھتے ہوئے مجھے انور مقصود کی وہ بات یاد آتی جو انہوں نے مجھے کچھ عرصہ قبل کہی تھی کہ ’ٹی وی پر کبھی ایسا مواد پیش کیا جاتا تھا جس کا مقصد لوگوں کو محظوظ کرنے کے ساتھ ان کی ذہنی نشوونما کرنا بھی تھا لیکن اب یہ مقصد سے ہٹ چکا ہے‘۔

پیمرا کا اقدام

یقیناً یہ سب باتیں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ممبران کے ذہن میں ضرور ہوں گی جب ہی انہوں نے ٹیلی ویژن چینلز کو مارننگ شوز میں ڈھنگ کا مواد پیش نہ کرنے کا نوٹس بھیجا۔

اس نوٹس میں واضح الفاظ میں لکھا تھا شوز میں کچھ اچھا دکھانے کی بجائے صرف شادی کی تقریبات، رقص، فیشن، نجی زندگی، شادی کے بعد ہونے والے مسائل دکھائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام احساس کم تری کا شکار ہوسکتے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ مارننگ شوز کو گزشتہ دو دہائیوں سے نشر ہونے کی اجازت مل رہی ہے، پیمرا کو اس بات کا احساس اتنی دیر میں کیوں ہوا کہ ان شوز میں پاکستانی معاشرے کی منفی شکل پیش کی جارہی ہے۔

ریٹنگز کی جنگ

اے آر وائے کے مارننگ شو ’گڈ مارننگ پاکستان‘ کی 9 سال سے میزبانی کرنے والی ندا یاسر کا اس بارے میں موقف ہے’ہم صرف شادیاں اور ڈانس اپنے مارننگ شوز میں نہیں دکھاتے، متعدد شوز میں ہم نے لوگوں کی تعلیم اور طبی ضروریات کے لیے فنڈز بھی جمع کیے، ہمارے شو میں ڈاکٹرز بھی آتے ہیں جو صحت کے حوالے سے بات کرتے ہیں، جب میک اپ کے حوالے سے شوز کیے جارہے ہوتے ہیں تو میں ہمیشہ لڑکیوں کو اپنی رنگت کے حساب سے میک اپ کرنے کا کہتی ہوں، میں نے کبھی بھی کسی کی جلد کی رنگت کے لیے ’سیاہ‘ لفظ کا استعمال نہیں کیا، کیوں کہ میں جانتی ہوں لوگوں کو یہ برا لگ سکتا ہے‘۔

ندا کے مطابق ’میں بھی انسان ہوں اور جب اتنے سالوں سے لائیو شو کرنا پڑرہا ہو تو یقیناً بہت سی غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں، ہم بھوت اور آسیب کے حوالے سے بھی شوز کرتے تھے لیکن پھر مجھے خود ڈر لگنے لگا، کیوں کہ ایسا ہی ایک شو کرتے ہوئے ہمارے سیٹ کی لائیٹ پھٹ گئی تھی جبکہ ٹیم کے ایک ممبر کے منہ سے جھاگ بھی بہنے لگا، جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اس قسم کے شوز پر کام نہیں کروں گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: مارننگ شو میں خوبصورت سے بدصورت بنانے کا انوکھا مقابلہ

ندا یاسر کا مزید کہنا تھا کہ ’ہاں ہمارے شو میں اسٹیج پر لائیو شادیاں ضرور ہوتی ہیں کیوں کہ یہ سب سے زیادہ مقبول ہونے والی اقساط ہیں، وہ شوز جہاں بہت زیادہ سنجیدہ اور ذہانت کی باتیں ہورہی ہوں اس کی ریٹنگز زیادہ نہیں آتی، ایک وقت تھا جب ہمارے شو میں ہفتے میں ایک بار کوئی شادی دکھائی جاتی تھی، لیکن بعدازاں شائستہ لودھی نے دوسرے چینل پر کیے اپنے مارننگ شو میں ہر روز ایک لائیو شادی دکھانا شروع کردی، جس کے بعد میرے شو کی ریٹنگز گرنا شروع ہوگئی، میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا جس کے بعد میں نے ایک طویل ویڈنگ سیزن کا اپنے شو پر آغاز کیا‘۔


ٹی وی ون پر ساحر لودھی شو کے میزبان ساحر کا کہنا تھا کہ ’پیمرا کے نوٹس جاری کرنے سے بھی کافی عرصہ قبل مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ ناظرین کو کچھ اور دکھا کر اپنے مارننگ شو کا انداز بدلا جائے‘۔

ساحر لودھی کے مطابق ’آہستہ ہی صحیح لیکن میں ایسا کررہا ہوں، میرے شو پر گیمز اور میوزک ہوتا ہے جبکہ ذہنی صحت جیسے موضوعات پر بھی بات کی جاتی ہے، میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو میرے شو سے امید ملے، میری ذمہ داری ہے کہ میں لوگوں کو معلومات کے ساتھ خود مختار بناؤں‘۔


اے آر وائے ڈیجیٹل نیٹ ورک کے سی ای او جرجیز سیجا کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں شادی کا سیزن سب سے زیادہ تقریبات کا سیزن مانا جاتا ہے، خواتین بالوں، میک اپ، ملبوسات ان سب کے بارے میں سوچنا شروع کردیتی ہیں، اس لیے ہم اپنے شوز میں ایسے موضوعات کیوں نہیں دکھاسکتے جسے دیکھ کر لوگ محظوظ ہوں؟ وہ افراد جو مارننگ شو میں آن ایئر شادیاں، گیمز، میک اپ شوز نہیں دیکھنا چاہتے وہ چینل تبدیل کردیں‘۔

لیکن کبھی کبھار چینل تبدیل کرنے کے بعد بھی ایسا ہی کوئی شو سامنے آتا ہے جس میں نامناسب شوز، بےتکے کھیل اور ہر 10 منٹ میں رقص پیش کیا جاتا ہے۔

معروف لکھاری اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ ’مواد اس وقت خراب ہونا شروع ہوتا ہے جب ناظرین کو وہ سب دکھایا جائے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں‘۔

انوار مقصود نے سوال کیا کہ ’کیا ریٹنگز ہی سب کچھ ہیں؟ آپ فحاشی دکھائیں اور ریٹنگز اس سے زیادہ اوپر جائے گی، پورا ملک یہ شو دیکھے گا، لیکن کیا یہ صحیح ہوگا؟‘


ڈان نیوز کے مارننگ شو چائے ٹوسٹ اور ہوسٹ کے پروڈیوسر قاسم شفیق کے مطابق ’ہمارے شو میں وہ موضوعات پیش کیے جاتے ہیں جن سے عوام خود کو جوڑ سکے، میں خوش قسمت ہوں کہ چینل مجھے ریٹنگز بڑھانے پر مجبور نہیں کرتا‘۔

آج کل کے مارننگ شوز میں صرف شادیاں اور ناچ گانے پیش کیے جاتے ہیں —فوٹو/ اسکرین شاٹ
آج کل کے مارننگ شوز میں صرف شادیاں اور ناچ گانے پیش کیے جاتے ہیں —فوٹو/ اسکرین شاٹ

ایسے ہی جیو نیوز پر ہما عامر اور عبداللہ سلطان جیو پاکستان شو کی میزبانی کرتے ہیں، ہما کا کہنا تھا کہ ’ہم پاپ کلچر کی بات کرتے ہیں، جبکہ ساتھ میں سنگین مسائل پر بھی نظر ڈالتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ہمارے شو کی ریٹنگ اتنی زیادہ نہیں ہو گی جتنی ان کمرشل مارننگ شوز کی ہے، لیکن ہم کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو اپنے شو سے کچھ دے سکیں‘۔


نامور مارننگ شو میزبان شائستہ لودھی کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے کبھی اس حوالے سے سوال نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ غلط ضرور ہے‘۔

شائستہ لودھی نے آخری بار جیو ٹی وی نیٹ ورک کا مارننگ شو ہوسٹ کیا، جبکہ انہوں نے 6 ماہ قبل ہی ان شوز سے ریٹائرمنٹ اختیار کرلی۔

مزید پڑھیں: جیو کے مارننگ شو پر شدید ردّعمل، پیمرا کا نوٹس

شائستہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے مارننگ شوز میں شادیوں کے ٹرینڈ کا آغاز کیا، میں ہی مجرم ہوں، لیکن اب یہ سب حد سے بڑھ چکا ہے، میرے آخری شوز کی تھیم یہ بھی رہی کہ سادگی سے کس طرح شادی کی جاسکتی ہے، کم بجٹ میں شادی کیسے ہوسکتی ہیں، میرا خیال تھا کہ یہ وہ موضوع ہے جو ناظرین ضرور پسند کریں گے، لیکن اس سے قبل جب لائیو شادیاں میں ٹی وی پر دکھاتی تھی تو یہی سوچتی تھی کہ آخر میں کیا کررہی ہوں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے تقریباً ہر بڑے چینل پر مارننگ شو ہوسٹ کیا، ہمیشہ یہی پریشر رہا کہ ریٹنگز زیادہ رہیں، میں خود بھی ایک ڈاکٹر ہوں اور مجھے یہ ڈر بھی رہتا تھا کہ کہیں مجھ سے میرا لائسنس واپس نہ لے لیا جائے کیوں کہ میں اپنے شو پر ایسے مہمانوں کو دعوت دیتی تھی جنہیں طبی مسائل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی رائے دے رہے ہوتے تھے‘۔


مستنصر حسین تارڑ کے مطابق ’لوگوں کو سکھائیں کہ وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں‘۔

کئی سالوں قبل مستنصر حسین تارڑ وہ واحد میزبان تھے جو مارننگ شو کی میزبانی کرتے تھے، وہ موجودہ حالات، میوزک، کتابوں جیسے موضوعات پر بات کرتے اور بچوں کو مشورے دیا کرتے تھے۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ایک وقت تھا جب مارننگز کافی مختلف ہوا کرتی تھیں‘۔

مستنصر حسین تارڑ نے بتایا کہ ’میں جان بوجھ کر مارننگ شو میں پاکستان ملبوسات پہنتا تھا کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ میری ٹرانسمیشن ہمارے ملک کی نمائندگی کرے، میرا مقصد ناظرین میں ہمارے ملک اور اس کی ثقافت کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا، مجھے بچے چاچاجی بلایا کرتے تھے، مجھے اور طارق عزیز کو سب سے پہلے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا تھا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ عوام کیا دیکھنا چاہتے ہیں، ہمارا میڈیا اتنا مضبوط ہے کہ وہ عوام کو خود یہ سمجھا سکتا ہے کہ وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں‘۔

مستنصر حسین تارڑ کے مطابق ’مجھے ندا خان نے اپنے شو پر پاکستان میں مارننگ شوز کا بانی قرار دیا تھا‘۔

یہ سچ ہے کہ آج کوئی مارننگ شو کا میزبان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ٹرینڈ سیٹر یا آئیکون ہے، امید ہے کہ یہ چینلز پیمرا کے نوٹس پر سنجیدگی سے عمل کرتے ہوئے ایسے شوز پیش کریں جو مثبت موضوعات ہر مبنی ہو، ورنہ انور مقصود کی کہی اس بات کی امید بھی کی جاسکتی ہے کہ ’ہر صبح مارننگ شوز کی نشریات کے وقت لوڈ شیڈنگ ہوجائے‘۔

یہ مضمون 27 جنوری کو ڈان آئیکون میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sohail Abdullah Feb 01, 2019 02:15am
میرے خیال میں مارننگ شوز میں میزبان کو بہت زیادہ دیر بولنا پڑتا ہے اور ایسا کرنا درحقیقت ایک مشکل کام ہے۔ مستنصر حسین تارڑ اور طارق عزیز یہ کام اچھے طریقے سے اس لئے کر لیتے تھے کیونکہ اُن کو اُردو ادب، انگریزی ادب، معاشرت و دیگر مضامین پر پڑھنے، لکھنے اور بولنے کا تجربہ تھا۔ جبکہ میزبان خواتین اور ساحر لودھی بغیر سوچے بولنے کے زیادہ عادی ہیں۔ دوسری جانب ایسے شوز کے لئے اچھے رائٹرز کی ضرورت ہوتی ہے جن کا استعمال مارننگ شوز میں بالکل بھی نظر نہیں آتا۔