امریکا کا روس سے جوہری ہتھیاروں کے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان

اپ ڈیٹ 02 فروری 2019
مریکا نے  روس سے جوہری ہتھیاروں کے معاہدےسے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ — فوٹو: اے پی
مریکا نے روس سے جوہری ہتھیاروں کے معاہدےسے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ — فوٹو: اے پی

امریکا نے طویل عرصے سے روس سے قائم جوہری ہتھیاروں کے معاہدے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی (آئی این ایف) سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔

امریکی خبررساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا کہ ’روس ایک طویل عرصے سے آئی این ایف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طریقے سے ایسے میزائل سسٹم تیار کر رہا ہے، جو ہمارے اتحادی اور بیرون ملک تعینات فوجیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے 30 برس سے زائد عرصے تک اس معاہدے کی مکمل پاسداری کی ہے لیکن روس کی جانب سے خلاف ورزی پر ہم اس کی شرائط پر عمل نہیں کریں گے‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم دنیا میں واحد ملک نہیں بن سکتے جو یک طرفہ طور پر اس معاہدے میں بندھے رہیں‘۔

مزید پڑھیں: روس اور چین جوہری عدم پھیلاؤ کو یقینی بنائیں، امریکا

اس حوالے سے نیٹو کا کہنا تھا کہ اگر روس، واشنگٹن کے اصرار پر معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے میزائل سسٹمز کو تباہ کرنے میں ناکام ہوگیا تو ’معاہدے کے خاتمے کا واحد ذمہ دار روس ہوگا‘۔

روس کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے تنازع کی وجہ سے چند ماہ سے امریکا کی دستبرداری کے امکانات تھے۔

تاہم روس اس معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

امریکی حکام نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چین جو کہ 1987 میں کیے گئے اس معاہدے کا رکن نہیں ہے، وہ اس معاہدے میں طے شدہ رینج سے زیادہ میزائل بناکر ایشیا میں فوجی فوائد حاصل کررہا ہے۔

آئی این ایف سے دستبردار ہونے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ اس معاملے میں چین کا مقابلہ کرسکے گی لیکن یہ واضح نہیں کہ امریکا یہ کیسے کرے گا۔

اس سے قبل دسمبر 2018 کے آغاز میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ’ واشنگٹن آئی این ایف سے دستبرداری سے قبل روس کو اس کی تعمیل کے لیے 60 دن کا وقت دیتا ہے، یہ 60 روز مکمل ہونے کے 6 مہینے بعد امریکا اس معاہدے سے باقاعدہ دستبردار ہو جائے گا‘۔

امریکا کی جانب سے روس کو دی گئی 60 روز کی مہلت ہفتہ 2 فروری کو ختم ہوجائے گی جس کے بعد امریکی انتظامیہ کی جانب سے یہ کہے جانے کا امکان ہے کہ روس کی طرف سے معاہدے پر تعمیل کی جانے کی کوششیں ناکام ہوئیں، اس لیے وہ معاہدہ ختم کر رہا ہے۔

تکنیکی طور پر امریکا کی جانب سے رواں ہفتے جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن کے 6 مہینے بعد امریکا معاہدے سے دستبردار ہوجائے گا، جس سے معاہدے کے بچاؤ کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے ہی امریکا نے روس اور چین پر آرمز کنٹرول معاہدے سے دستبرداری کی امریکی دھمکیوں کے باوجود جوہری منصوبوں سے مکمل طور پر آگاہ نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید شفافیت کا مطالبہ کیا تھا۔

روس کی سرکاری نیوز ایجنسی 'طاس' کے مطابق روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوو نے گزشتہ روز بیجنگ میں مذاکرات مکمل ہونے کے بعد کہا تھا کہ ’ بدقسمتی سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، امریکا اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ امکان ہے کہ واشنگٹن اس معاہدے سے دستبردار ہوجائے، انہوں نے مزید کہا تھا کہ روس ایسے حل کی تلاش میں ہے جس کے تحت اس معاہدے کو برقرار رکھا جاسکے‘۔

کارنیگ انڈومنٹ برائے عالمی امن کے جوہری ہتھیاروں کے ماہرین نے رواں ہفتے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’روس کی جانب سے آئی این ایف کی خلاف ورزی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں موجودہ حالات میں امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوسکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’آئی این ایف معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد امریکا اور روس کے درمیان میزائل کے ایک نئے مقابلے کا آغاز ہوجائے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: جوہری ہتھیاروں کی نئی امریکی حکمت عملی بہت بڑا خطرہ ہے، امریکی ماہرین

آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن میں ہتھیاروں کی تخفیف کے ڈائریکٹر کنگسٹن ریف نے کہا تھا ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کو بچانے کی سفارتی کوششوں میں ناکام ہوگئی ہے، ان کے پاس روس کو معاہدے کی غیر موجودگی میں مزید انٹرمیڈیٹ رینج میزائل بنانے سےروکنےکی کوئی حکمت عملی موجود نہیں‘۔

انہوں نے کہا اگست تک اس معاہدے کو بچانے کا آخری موقع ہے جس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔

کنگسٹن ریف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جون بولٹن ’طویل عرصے سے جاری اس معاہدے کے خاتمے کا موقع نہیں چھوڑیں گے‘۔

خیال رہے کہ امریکا اور روس کے درمیان 1987 میں درمیانی رینج کے ایٹمی ہتھیاروں کی پابندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت 5 سو اور 5 ہزار 5 سو کلومیٹر رینج کے زمین سے مار کر نے والے کروز میزائل پر پابندی عائد تھی۔

اس معاہدے پر اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن اور روس کے صدر میخائل گوربا چوف نے دستخط کیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں