ٹرمپ کا افغانستان، شام سے واپسی مگر عراق میں فوج رکھنے کا عزم

04 فروری 2019
ٹرمپ کے مطابق امریکا نے عراق میں مہنگا فوجی بیس تعمیر کیا ہے—فوٹو:اے ایف پی
ٹرمپ کے مطابق امریکا نے عراق میں مہنگا فوجی بیس تعمیر کیا ہے—فوٹو:اے ایف پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور شام سے فوجی انخلا کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں موجود رہیں گے تاکہ ایران پر نظر رکھی جاسکے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ‘یہ وقت قوم کا سامنا کرنے کا ہے اور ہم دیکھیں گے کہ طالبان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، وہ امن چاہتے ہیں کیونکہ وہ تھک چکے ہیں، ہر کوئی تھک چکا ہے’۔

واضح رہے کہ امریکی عہدیداروں اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات ہوئے تھے اور طویل مذاکرات کےبعد افغانستان میں جاری 17 سالہ جنگ کے خاتمے کی جانب اہم پیش رفت ہوئی تھی۔

شام کے حوالے سےبات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہاں موجود 2 ہزار فوجی وقت کے ساتھ ساتھ واپس آئیں گے لیکن اسرائیل کا تحفظ بھی ضروری ہے اور دیگر معاملات پر رفتار ابتدائی اعلان کے بعد سست روی کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا اور طالبان تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے، زلمے خلیل زاد

داعش کو شکست دینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہم اس وقت 99 فیصد تک پہنچے ہیں اور یہ 100 فیصد ہوجائے گا’۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا، عراق میں قائم مراکز کو ختم نہیں کرے گا کیونکہ ‘ان مراکز کی تعمیر کے لیے ہم نے ایک وقت صرف کیا ہے اور ہم اس کو اپنے پاس رکھیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اس وجہ سے بھی ان کو اپنے رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ ایران پر نظر رکھنی ہے جو ایک حقیقی مسئلہ ہے’۔

امریکی صدر نے کہا کہ ‘ہم عراق میں ناقابل یقین اور ایک مہنگا فوجی بیس تعمیر کر چکے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے تمام مراکز پر نظر رکھنے کے لیے بہتر جگہ پر ہے جہاں سے واپسی نہیں ہونی چاہیے’۔

مزید پڑھیں:’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

انہوں نے کہا کہ ‘ہم نظر رکھیں گے کہ اگر کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے اور اگر جوہری ہتھیاروں یا دیگر چیزوں کی سرگرمیوں ہوگی تو بھی نظر رکھیں گے’۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان اور شام سے فوجی انخلا کے بیان کے بعد امریکا کے انٹیلی جنس اداروں کے اعلیٰ حکام نے مخالفت کی تھی جبکہ سیکریٹری دفاع سمیت اہم عہدیداروں نے استعفیٰ بھی دیا تھا۔

دوسری جانب گزشتہ ہفتے افغان امن عمل کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان حکام افغانستان سے دہشت گردوں کو نکال باہر کرنے، تمام امریکی فوجیوں کے انخلا، جنگ بندی اور کابل-طالبان مذاکرات جیسے تمام اہم معاملات پر راضی ہوگئے ہیں۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس فریم ورک کا ایک مسودہ ہے جو معاہدے سے قبل وضع کیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے اطمینان کے لیے طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ افغانستان کو کبھی بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں یا افراد کے لیے پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے جو ضروری ہوگا وہ کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں