امریکا اور طالبان تمام اہم معاملات پر راضی ہوگئے، زلمے خلیل زاد

اپ ڈیٹ 18 اگست 2019
زلمے خلیل زاد نے دوحہ مذاکرات میں امریکی ٹیم کی قیادت کی تھی—فائل فوٹو: اے پی
زلمے خلیل زاد نے دوحہ مذاکرات میں امریکی ٹیم کی قیادت کی تھی—فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: افغان امن عمل کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان حکام افغانستان سے دہشت گردوں کو باہر نکالنے، تمام امریکی فوجیوں کے انخلا، جنگ بندی اور کابل-طالبان مذاکرات جیسے تمام اہم معاملات پر راضی ہوگئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابل میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس فریم ورک کا ایک مسودہ ہے جو معاہدے سے قبل وضع کیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے اطمینان کے لیے طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ افغانستان کو کبھی بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں یا افراد کے لیے پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے جو ضروری ہے وہ کیا جائے‘۔

مزید پڑھیں:طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ 'سنجیدہ مذاکرات' کرنے چاہیئں، اشرف غنی

علاوہ ازیں گزشتہ ہفتے دوحہ قطر میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں امریکی ٹیم کی قیادت کرنے والے زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی کو دوحہ میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا تھا۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’گزشتہ شب ہماری پیش رفت پر صدر اشرف غنی کو بریفنگ دی گئی، افغانستان میں امن امریکا کی اولین ترجیح ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کو تمام افغانوں سے شیئر کرنا چاہیے‘۔

دوسری جانب افغان صدارتی دفتر نے زلمے خلیل زاد کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ’اہم پیش رفت‘ کے دعوے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی۔

افغان حکام کے بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی اور ان کی کابینہ کو دوحہ مذاکرات پر بریفنگ دی لیکن ساتھ ہی بتایا کہ انہیں نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ان کے انٹرویو کے کچھ نکات سے اختلاف کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ امریکی نمائندہ خصوصی نے طالبان کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت کی لیکن ’اس معاملے پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی‘۔

افغان حکام کے بیان میں کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس معاملے پر بھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

تاہم زلمے خلیل زاد نے نیو یارک ٹائمز کو کہا کہ امریکا اور طالبان کے نمائندوں نے یہ اعتماد محسوس کیا کہ مذاکرات صحیح سمت میں جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے کافی اعتماد محسوس کیا کہ ہمیں اسے سامنے لانے کی ضرورت ہے اور تفصیلات پر کام کرنا بھی ضروری ہے۔

سینئر امریکی حکام نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ طالبان کے وفد نے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے امریکی اصرار اور کسی حتمی معاہدے کے حصے کے طور پر جنگ بندی پر رضا مند ہونے سے متعلق اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے طالبان کو واضح کیا کہ تمام زیر بحث آنے والے معاملات ایک ’پیکج ڈیل‘ کے حصے کے طور پر ’منسلک‘ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں