افغانستان سے یکم مئی تک نصف امریکی فوجی چلے جائیں گے، طالبان کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 06 فروری 2019
ماسکو میں طالبان کا وفد مذاکرات کیلئے آرہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
ماسکو میں طالبان کا وفد مذاکرات کیلئے آرہا ہے — فوٹو: اے ایف پی

طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے رواں برس اپریل کے آخر تک افغانستان سے نصف فوجیوں کی واپسی پر آمادگی کا اظہار کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق قطرمیں طالبان اور امریکا کے مابین جاری امن مذاکرات سے متعلق دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ سلام حنیفی نے بتایا کہ ’امریکا نے اپنی نصف فوجیں فوری طور پر واپس بلانے پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے اور فوجیوں کی واپسی کا عمل یکم فروری سے شروع ہوگا جو اپریل کے آخر تک جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے‘۔

دوسری جانب امریکا کے مصالحت کار زلمے خلیل زاد متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ’جب تک تمام مسائل پر آمادگی نہیں ہو گی تب تک کسی ایک مسئلے پر بھی آمادگی نہیں ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہر پیش رفت میں دوطرفہ افغان مذاکرات اور مکمل جنگ بندی شامل ہونی چاہیے‘۔

امریکا کی جانب سے تاحال فوجیوں کی واپسی سے متعلق منصوبے پر کوئی تفصیلات پیش نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز روس میں سینئر افغان سیاست دانوں کے ساتھ غیر معمولی مذاکرات میں طالبان نے جنگ زدہ افغانستان کے لیے ’نئے آئین‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

مذاکراتی عمل میں طالبان رہنما، افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی، اپوزیشن رہنما اور قبائلی علما شامل ہیں تاہم کابل حکومت کے حکام مذاکرات کا حصہ نہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں ’نئے آئین‘ کا مطالبہ کردیا

ماسکو میں افغان رہنماؤں سے مذاکرات کے دوران طالبان نے افغانستان کے لیے ’اسلامی نظام‘ کا وعدہ بھی کیا تھا۔

دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ان مذاکرات کے حوالے سے موقف اختیار کیا کہ ماسکو میں مذاکرات محض ایک رومانوی کہانی ہے، افغان شہریوں کی آمادگی شامل کیے بغیر ان کے مستقبل کا فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جو لوگ ماسکو میں جمع ہیں انہیں کس نے ایگزیکیٹو اتھارٹی دی، وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہیں لیکن وہ کس کی نمائندگی کررہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھین: امریکا، افغان طالبان مذاکرات پر مایوسی کے بادل منڈلانے لگے

واضح رہے کہ چند روز قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی حکام اور طالبان نمائندوں کے درمیان چھ روزہ مذاکرات کے بعد افغان امن معاہدے کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی تھی اور افغانستان میں امریکا کی 17 سالہ جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی۔

تاہم امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام امور پر اتفاق قائم ہونے تک کوئی بات حتمی نہیں ہوگی، جبکہ ابھی کئی معاملات پر کام کرنا باقی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں