’سندھ میں مہلک ٹائیفائیڈ کی وبا پر قابو پانے کی کوششیں جاری’

اپ ڈیٹ 10 فروری 2019
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اس ٹائیفائیڈ پر تھرڈ جنریشن اینٹی بائیوٹکس کا اثر نہیں ہوتا — فوٹو: اے ایف پی
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اس ٹائیفائیڈ پر تھرڈ جنریشن اینٹی بائیوٹکس کا اثر نہیں ہوتا — فوٹو: اے ایف پی

کراچی: سندھ کے وزیر صحت نے ڈرگ انسپکٹرز، متعلقہ حکام اور اداروں کو ٹائیفائیڈ کی وبا پر قابو پانے والی 2 اہم ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں بڑی تعداد میں لوگ معمول کی ادویات سے صحت یاب نہ ہونے والے ٹائیفائیڈ کی وبا میں مبتلا ہوگئے ہیں جس سے درجنوں افراد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔

صوبے کے چیف ڈرگ انسپکٹر نے صوبے کے تمام اضلاع کے ڈرگ انسپکٹرز، پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچرز ایسوسی ایشن فارما بیورو، پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن، سندھ اور ہول سیل کراچی فارما آرگنائزیشن کو ہدایت کی کہ زندگیاں بچانے کے لیے مناسب مقدار میں 2 اہم ترین اینٹی بائیوٹکس کی دستیابی یقینی بنائیں۔

وزارت صحت کے سینئر حکام کا کہنا تھا کہ ’یہ 2 ادویات اس خطرناک بیماری کے علاج میں نہایت موثر ہیں جس نے سندھ کے اضلاع میں بربادی مچا رکھی ہے اور جس کی وجہ سے دارالحکومت میں چند اموات بھی ہوئی ہیں‘۔

انہوں نے ان ادویات کے نام بھی بتائے تاہم انہوں نے درخواست کی کہ ان کی تشہیر نہ کی جائے کیونکہ ملک میں کئی افراد خود سے دوائیں کھانے کو ترجیح دیتے ہیں اور بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے غیر قانونی فارمیسیز سے ادویات حاصل کرلیتے ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ ’سندھ میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کی وبا پھیل گئی ہے جس کے حوالے سے صوبائی حکام عالمی ادارہ صحت اور دیگر غیر ملکی ایجنسیوں سے مشاورت کر رہے ہیں تاکہ اس پر قابو پایا جاسکے'۔

واضح رہے کہ چند ممالک میں سندھ کو خطرناک جگہ تصور کیا جاتا ہے جہاں شہریوں کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ٹائیفائیڈ کی وبا پر معمول کی اور تھرڈ جنریشن اینٹی بائیوٹکس کا اثر نہیں ہوتا تاہم 2 ادویات ان کے علاج میں نہایت موثر ثابت ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بیماری 2016 میں سندھ کے چند اضلاع میں سامنے آئی تھی اور اب تک 8 ہزار افراد اس کا شکار ہوچکے ہیں جن میں کراچی کے شہری بھی شامل ہیں‘۔

اس بیماری کی علامات عام ٹائیفائیڈ جیسی ہی ہیں جس میں متلی، تیز بخار اور سینے کا انفیکشن وغیرہ شامل ہے۔

گندہ پانی ٹائیفائیڈ اور دیگر بیماریوں کی اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے خیال کیا جارہا ہے کہ کراچی سے اگر ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ سے جلد چھٹکارا حاصل نہ کیا گیا تو اس کے نقصانات بڑھتے جائیں گے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 10 فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں