بلدیہ فیکٹری مقدمے میں 2 گواہوں کا ملزم کے خلاف حلفیہ بیان

14 فروری 2019
سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی
سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: بلدیہ فیکٹری میں لگنے والی آگ کے مقدمے کی سماعت کے دوران 2 گواہوں میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے اور واقعے میں ملوث ایک ملزم زبیر عرف چریا کے خلاف حلفیہ بیان دے دیا۔

11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور اس مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی، عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا سمیت 11 ملزمان پر فیکٹری میں آگ لگانے کا الزام ہے۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: 6 سال گزر گئے، کیس تاحال التوا کا شکار

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 6 کے جج کے سامنے 2 گواہان نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے۔

انہوں نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ واقعے کے دن وہ فیکٹری سے چلے گئے تھے اور جب واپس آئے تو فیکٹری کو آگ لگائی جا چکی تھی۔

عینی شاہدین نے کہا کہ وہ اس موقع پر جتنے مرد و خواتین کو نکال سکتے تھے، انہیں نکال لیا لیکن بقیہ بدقسمت افراد بھیانک آگ میں زندہ جل کر خاکستر ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس موقع پر فیکٹری کے مالکان بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ ٹاؤن: جرمن عدالت نے ٹیکسائل کمپنی کےخلاف مقدمہ خارج کردیا

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران دیگر افراد خود کو اور دوسروں کو آگ سے بچانے کی کوششوں میں مصروف تھے لیکن انہوں نے زبیر کو کینٹین میں سگریٹ پیتے اور دیگر 2 اور 3 افراد کے ہمراہ ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھا۔

عینی شاہد نے مزید نشاندہی کی کہ بعدازاں انہوں نے زبیر کو چھت پر بھی سگریٹ پیتے اور مسکراتے ہوئے دیکھا۔

دونوں عینی شاہدین نے کہا کہ غم و غصے کی حالت میں جب کچھ ملازمین نے زبیر کو پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے کینٹین کے اندر جا کر اس کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور پھر فیکٹری سے فرار ہو گیا۔

انہوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ نچلی منزل کے ساتھ ساتھ فیکٹری کے بالائی حصے کی ایک عمارت زمین بوس ہو گئی اور متعدد ملازمین کو وہاں سے فورا جان بچا کر بھاگنا پڑا۔

اس کے بعد ملزم زبیر کے وکیل نے دونوں گواہوں سے جرح کی۔

سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والی اس سماعت کے دوران گواہوں کے بیان ریکارڈ ہونے کے بعد جج نے دیگر گواہان کے ساتھ ساتھ جوڈیشل مجسٹریٹ کو بھی فروری کو طلب کر لیا۔

پروسیکیوشن کے مطابق مشتبہ ملزمان نے اس وقت کے ایم کیو ایم کی کراچی میں تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی ہدایات پر عمل کیا کیونکہ فیکٹری کے مالکان نے بھتے کی رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔

حماد صدیقی کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ: فیکٹری مالکان کے بیانات ریکارڈ

ابتدائی طور پر ثبوتوں کی عدم موجودگی پر پولیس نے زبیر کو رہا کردیا تھا البتہ عبدالرحمٰن عرف بھولا کی جانب سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے قلمبند کرائے گئے بیان میں انہوں نے زبیر کو بھی شریک جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے زبیر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فیکٹری کو آگ لگانے کا کام انجام دیا جس کے بعد پولیس نے زبیر کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

پروسیکیوشن نے مقدمے میں 670 گواہوں کی فہرست مرتب کی تھی لیکن بعد میں 300 کا بیان نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق اب تک عدالت کی جانب سے 330 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 14 فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں