افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کو 30 سال مکمل

اپ ڈیٹ 16 فروری 2019
تقریب میں افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے گئے—فوٹو: اے ایف پی
تقریب میں افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے گئے—فوٹو: اے ایف پی

ماسکو: افغان جنگ میں حصہ لینے والے سیکڑوں سابق روسی فوجیوں نے افغانستان میں خونزیر جنگ کے بعد روسی افواج کی واپسی کی 30 سالہ یاد کی تقریبا میں شرکت کی۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس سلسلے میں انہوں نے ایک بینڈ کے ہمراہ گہرے سبز رنگ کی وردیاں پہن کر ایک دہائی تک جاری رہنے والی جنگ کی یاد میں مارچ پاسٹ کیا اور اس دوران ایک بینر بھی آویزاں کیا گیا تھا جس پر درج تھا کہ ’ہم نے مادرِ وطن کے احکامات کی تعمیل کی‘۔

یاد رہےکہ کابل حکومت کی طالبان سے لڑائی میں روسی افواج، حکومت افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی مدد کو پہنچی تھیں اور اپنے 14 ہزار فوجی جوان گنوا بیٹھی، اس تنازع نے سوویت یونین کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں روسی مداخلت: امریکا پاکستان کو کیسے دیکھتا تھا؟

افغانستان میں جنگ کا حصہ بننے والے ایک سابق فوجی اینڈری گوسیو کا کہنا تھا کہ ’لوگ اس جنگ کے حوالے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں، جیسا کہ یہ صرف ہماری جنگ تھی جبکہ عام عوام کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں‘۔

سابق روسی فوجیوں سے سبز رنگ کی وردیاں پہن کر تقریب میں شرکت کی—فوٹو:اے پی
سابق روسی فوجیوں سے سبز رنگ کی وردیاں پہن کر تقریب میں شرکت کی—فوٹو:اے پی

اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حتیٰ کہ میری اولادوں کو بھی دلچسپی نہیں‘، روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے دور میں اس جنگ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے حالیہ سالوں میں کچھ کوششیں ضرور کی گئیں جن میں مشرق وسطیٰ میں ماسکو کی عسکری خارجہ پالیسی اور مغرب کے ساتھ بڑھتی خلیج شامل ہے۔

اس ضمن میں روسی رائے عامہ پر تحقیق کرنے والے ادارے ’ڈبلیو سی آئی او ایم‘ کے شائع کردہ جائزے کے مطابق 42 فیصد روسی شہریوں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں مداخلت غلط فیصلہ تھا جبکہ 31 فیصد سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ضروری تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا افغانستان سے نکل جائے یا سوویت یونین کی طرح شکست کا سامنا کرے

سروے میں جنگ کی حمایت کرنے والے زیادہ افراد وہ ہیں جو اس طویل جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئے۔

اس موقع پر روسی وزارت دفاع کی جانب سے افغان جنگ کے حوالے سے متعدد ایسی دستاویزات بھی شائع کی گئیں جنہیں ماضی میں خفیہ رکھا گیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق افغانستان میں مداخلت کا مقصد ’افغان فوج کو جنگ میں معانت فراہم کرنا تھا تاکہ وہ مخالفین سے لڑسکیں لیکن حقیقی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوگئی اور سوویت یونین کو حقیقی جنگ کا حصہ بننا پڑا'۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور روس کی افغانستان میں نئی کھینچا تانی

واضح رہے کہ روس نے 15 فروری 1989 کو افغانستان سے اپنا آخری فوجی دستہ واپس بلایا تھا، یہ فیصلہ میخائل گورباچوف نے کیا تھا جو اس وقت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری تھے اور اسے آج بھی سراہا جاتا ہے۔

فوجیوں کی یادگار میں ہر پتھر پر اس سال ہلاک ہونے والے فوجیوں کے نام درج ہیں—فوٹو:اے ایف پی
فوجیوں کی یادگار میں ہر پتھر پر اس سال ہلاک ہونے والے فوجیوں کے نام درج ہیں—فوٹو:اے ایف پی

اس حوالے سے دیے گئے ایک انٹرویو میں گورباچوف نے کہا تھا کہ ’فوجی انخلا کا فیصلہ‘ ان بہت سے فیصلوں کے بعد کیا گیا جس میں سوویت قیادت نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ ’افغان مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں‘۔

دسمبر 1989 میں سوویت رہنماؤں نے ایک قراردار منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں مداخلت کا فیصلہ ’سیاسی اور اخلاقی مذمت کے لائق ہے‘۔

موجودہ پارلیمنٹ کے ایک رکن نے گزشتہ سال مذکورہ بالا قرار داد کو مسترد کرنے کی تجویز دی تھی۔

مزید پڑھیں: کیا افغانستان واقعی امریکا کے لیے ایک اور ویتنام ہے؟

افغانستان سے فوجی انخلا کے 30 سال مکمل ہونے پر صدر ولادی میر پیوٹن نے سابق فوجی ولادیمیر کوفتن کو روس کے سب سے بڑے اعزاز ’ہیروز آف رشیا‘ سے نوازا۔

وہ اس وقت اسپیشل فورس کے کمانڈر تھے جنہوں نے 1987 میں قندھار میں ایک ایسا اسٹنگر اینٹی کرافٹ میزائل پکڑا تھا جس پر امریکی دستاویزات درج تھیں، جو افغان جنگ میں امریکا کی مجاہدین کو معاونت فراہم کرنے کا پہلا دستاویزی ثبوت ثابت ہوا۔


یہ خبر 16 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں