عنبرین قتل کیس: عدم شواہد کی بنا پر 15 ملزمان بری

اپ ڈیٹ 22 فروری 2019
17 سالہ لڑکی کو اپنی دوست کی پسند کی شادی کروانے کے الزام میں مبینہ طور پر جرگہ کے احکامات پر زندہ وین میں جلا دیا گیا تھا۔ — فائل فوٹو/ڈان نیوز
17 سالہ لڑکی کو اپنی دوست کی پسند کی شادی کروانے کے الزام میں مبینہ طور پر جرگہ کے احکامات پر زندہ وین میں جلا دیا گیا تھا۔ — فائل فوٹو/ڈان نیوز

انسداد دہشت گردی عدالت نے ایبٹ آباد میں جواں سالہ عنبرین کو زندہ جلانے کے واقعے کے 15 ملزمان کو عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا۔

واضح رہے کہ 23 اپریل کو ایبٹ آباد کے قریب واقع گاؤں مکول میں ایک نوجوان لڑکی صائمہ نے گھر سے فرار ہوکر پسند کی شادی کی، مذکورہ جوڑے نے فرار ہونے کے لیے نصیر نامی شخص کی گاڑی استعمال کی اور اس تمام واقعے کی رازدان صائمہ کی کلاس فیلو مذکورہ لڑکی عنبرین کو ٹھہرایا گیا تھا۔

فرار ہونے والے جوڑے کے اہل خانہ نے نصیر سے پوچھ گچھ کی اور وہ 3 دن تک انہیں تلاش کرتے رہے، بعدازاں مکول کے کونسلر پرویز نے نصیر کے گھر پر ایک جرگہ بلوایا جس میں 15 اراکین شریک ہوئے تھے۔

جرگے نے دونوں کو 'عبرت ناک سزا' دینے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ عنبرین کو بھی 'سزا' دینے کا فیصلہ کیا، جو اس سارے واقعے سے باخبر تھیں۔

28 اپریل کی رات کو جرگے کے 5 سے 6 اراکین عنبرین کے گھر گھس آئے اور اس کی والدہ کو ڈرا دھمکا کر عنبرین کو اپنے ساتھ لے گئے، اسے ایک خالی مکان میں لے جاکر نشہ آور ادویات دے کر بے ہوش کیا گیا اور پھر گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا اور بعدازاں سڑک کنارے کھڑی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔

29 اپریل کو ڈونگا گلی کے علاقے میں ایک جلی ہوئی گاڑی سے ملی، جس کے قریب کھڑی دوسری گاڑی بھی جلی ہوئی تھی۔

ڈی پی او خرم رشید کا کہنا تھا کہ عنبرین ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی والدہ جرگے کے فیصلے کے خلاف مزاحمت نہ کرسکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نام نہاد جرگہ علاقہ عمائدین پر نہیں بلکہ علاقے کے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل تھا۔

پولیس کی جانب سے خالی مکان کے قریب سے نشہ آور ادویات اور گاڑی کو آگ لگانے کے لیے استعمال ہونے والا پیٹرول کا کنستر بر آمد کیا گیا تاہم عدالت نے ملزمان کے خلاف شواہد ’ناکافی‘ قرار دیے کیونکہ پولیس کی جانب سے ملزمان کو موبائل فون کے ریکارڈز دیکھتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ گاڑی کے مالک اور ڈرائیور محمد نصیر نے دفعہ 302/436 اور 427 کے تحت ڈونگا گلی پولیس میں 29 اپریل کو اپنی گاڑی جلائے جانے پر ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

پولیس کی جانب سے 14 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جس میں ڈرائیور، جرگہ کے سربراہ سمیت عنبرین کی والدہ بھی شامل تھیں۔

عنبرین کی مدد سے مبینہ طور پر فرار ہونے والی لڑکی صائمہ کا کہنا تھا کہ مقتول کو ان کی شادی کے حوالے سے کچھ بھی علم نہیں تھا۔

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ ’عنبرین میری شادی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی وہ میری دوست تھی‘۔

انہوں نے حکام سے سیکیورٹی کا بھی مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ’ان کی اور ان کے شوہر کی جان خطرے میں ہے، جنہوں نے عنبرین کو جلایا ہے اب وہ مجھے دھمکیاں دے رہے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں