شارجہ وہ میدان ہے جس نے کئی یادگار مقابلے دنیائے کرکٹ کو دیے ہیں، جن میں صرف ایک مقابلہ اور ایک چھکا ہی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ لیکن جمعے کے روز، چھٹی کے دن، پاکستان سپر لیگ سیزن 4 کے پہلے فل ہاؤس میں ہمیں 2 ایسے میچز دیکھنا نصیب ہوئے جنہیں بھی مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

پہلے لاہور قلندرز نے آخری گیند پر چھکے کے ذریعے ملتان سلطانز کو ناقابلِ یقین شکست دی اور پھر اسلام آباد یونائیٹڈ محمد سمیع کی ہیٹ ٹرک کے ذریعے 'زوردار' پشاور زلمی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہی وہ مقابلے تھے کہ جن کا ہمیں شدت سے انتظار تھا اور دونوں ہی میں کپتانوں کا کردار نمایاں رہا۔ لاہور نے اے بی ڈی ویلیئرز کی نصف سنچری کی مدد سے جبکہ اسلام آباد نے محمد سمیع کی بدولت کامیابی حاصل کی اور دونوں مردِ میدان قرار پائے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان محمد سمیع
اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان محمد سمیع

لاہور قلندرز کے کپتان اے بی ڈی ویلیئرز
لاہور قلندرز کے کپتان اے بی ڈی ویلیئرز

پہلے بات کرتے ہیں لاہور قلندرز کی کہ ہر سیزن میں جن کی داستان ہمیشہ عجیب ہی رہتی ہے۔ عروج و زوال، نشیب و فراز کی کہانی کہ جس کی مثال ہمیں بین الاقوامی کرکٹ میں صرف پاکستان کی صورت میں ہی نظر آئے گی یعنی ایسی ٹیم جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، جو unpredictable ہے۔

ابھی پچھلے ہی مقابلے میں تو لاہور قلندرز سیزن کے کم ترین اسکور 78 پر ڈھیر ہوئے تھے؟ لیکن ملتان سلطانز کے خلاف 201 رنز کا ہدف بھی یوں حاصل کرگئے گویا ان سے زیادہ مضبوط کوئی ہے ہی نہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ جب 13ویں اوور میں برینڈن ٹیلر کے زخمی ہونے پر ڈیوڈ ویز میدان میں اترے تو لاہور کو 43 گیندوں پر 93 رنز کی ضرورت تھی۔ اس مرحلے پر اے بی ڈی ویلیئرز اور ان کے ہم وطن ڈیوڈ ویز کی جادوئی اننگز نے قلندروں کو ایسی فتح سے ہمکنار کیا جو کسی کے بھی وہم و گمان سے باہر تھی، یہاں تک کہ امید کی انتہاؤں کو چھونے والے قلندرز کے مالک رانا فواد صاحب کے لیے بھی کہ جنہوں نے کامیابی کے بعد دیوانہ وار سجدۂ شکر ادا کیا۔

لیکن یاد رکھیں کہ ایسی معجزاتی کامیابیوں میں قسمت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ 18ویں اوور میں ڈیوڈ ویز جنید خان کی ایک گیند پر کیچ دے بیٹھے تھے لیکن ری پلے میں ظاہر ہوا کہ یہ ایک نو-بال تھا۔ ویز کو نئی زندگی ملی اور اگلی ہی گیند، یعنی فری ہٹ، پر ہمیں 'اے بی' کا جادو دیکھنے کو ملا کہ جنہوں نے ایسا چھکا لگایا کہ بقول شخصے پورا پی ایس ایل ایک طرف اور یہ چھکا ایک طرف۔

بہرحال، حتمی وار تو وہی تھا جو ویز نے آخری گیند پر کیا تھا۔ قلندروں کو جیتنے کے لیے 3 رنز کی ضرورت تھی اور بہت عمدہ باؤلنگ کرنے والے ڈین کرسچن کو ڈیوڈ ویز نے لانگ آف پر چھکا جڑ دیا۔ ڈی ویلیئرز نے 29 گیندوں پر 52 جبکہ دوسرے اینڈ سے ویز نے 20 گیندوں پر 45 رنز بنائے اور اپنے پرستاروں کو نئی امیدیں دے دی ہیں۔

لاہور کی شاندار کامیابی پر فواد رانا کی دیوانہ وار خوشی دیکھ کر ملک کے تمام کرکٹ فینز تو بہت خوش ہیں ہی لیکن کئی ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟ کیا ڈی ویلیئرز کی صورت میں انہیں بالآخر نجات دہندہ مل گیا ہے؟ کیا اب وہ تسلسل کے ساتھ کارکردگی پیش کرسکیں گے؟ یہ آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا۔

دوسری جانب اسلام آباد یونائیٹڈ کا سفر بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ 3 سیزنز 'کیپٹن کُول' مصباح الحق کی قیادت میں کھیلنے کے بعد اس بار محمد سمیع کو قیادت سونپی گئی۔ جب پشاور زلمی کو آخری 7 اوورز میں 94 رنز کی ضرورت تھی تو لگتا تھا اسلام آباد باآسانی جیت جائے گا لیکن زلمی کا وار زوردار ہوتا ہے۔ کیرون پولارڈ کی دھواں دار اننگز کے سامنے یونائیٹڈ کا دفاع بُری طرح ناکام ہو رہا تھا کہ 17ویں اوور کی آخری گیند پر ان کا بلاوا آگیا۔ پھر اسلام آباد مقابلے پر چھاتا چلا گیا یہاں تک کہ آخری اوور میں محمد سمیع نے مسلسل 3 گیندوں پر آخری تینوں بلے بازوں کو ٹھکانے لگا کر سیزن کی پہلی ہیٹ ٹرک کرلی۔

گوکہ ساری توجہ اور مین آف دی میچ ایوارڈ محمد سمیع لے گئے لیکن درحقیقت اسلام آباد کی کامیابی کی بنیاد 2 کھلاڑیوں نے رکھی۔ ایک تو انگلش بیٹسمین این بیل جنہوں نے 49 رنز پر 3 وکٹیں گرنے کے بعد اننگز کو سنبھالا دیا اور 54 رنز بنائے، دوسرے اپنا پہلا میچ کھیلنے والے نو عمر فاسٹ باؤلر محمد موسیٰ۔ 18 سالہ باؤلر نے میچ کے اہم ترین مراحل پر کامران اکمل، ڈیوڈ ملان اور ڈیرن سیمی کی قیمتیں وکٹیں حاصل کیں اور میچ کو اسلام آباد کے حق میں جھکانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ موسیٰ کی خاص بات ان کی رفتار تھی، انہوں نے تسلسل کے ساتھ 140 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیندیں پھینکیں اور زلمی جیسی طاقتور بیٹنگ لائن اپ کو خاصا پریشان کیا۔

ان 2 شاندار مقابلوں کے بعد اب پی ایس ایل دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے کہ جہاں 3 ٹیموں نے 4 مقابلوں میں سے 2، 2 فتوحات حاصل کی ہیں یعنی پشاور، اسلام آباد اور لاہور۔ ان کے پوائنٹس برابر ہیں اور فرق محض رن ریٹ کا ہے۔ یہ فرق کب تک قائم رہتا ہے اور آئندہ مقابلوں سے ٹیبل پر کیا فرق پیدا ہوسکتا ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ لاہور کی تازہ کامیابی نے نہ صرف اس کے پرستاروں کے حوصلے بلند کیے گئے ہوں گے بلکہ ڈی وiلیئرز کی وجہ سے فین بیس بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کارکردگی سے حوصلہ پانے کے بعد قلندرز ناقابلِ شکست کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں