عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

ایک ہندوستانی پائلٹ جس کا جہاز آزاد کشمیر میں مار گرایا گیا تھا، اس کی رہائی کو وزیر اعظم عمران خان نے جذبہ امن و خیرسگالی قرار دیا، اس عمل سے دونوں ملکوں کے مابین قابو سے باہر ہوتی اور تیزی سے بڑھتی کشیدہ صورتحال میں کمی تو شاید آئی ہو لیکن بحران ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے۔

جس کا واضح اندازہ ہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی ملک میں کی گئی تقریر سے لگا سکتے ہیں، جس میں انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ ابھی تو انہوں نے ’پائلٹ پراجیکٹ‘ ہی دیکھا ہے، جسے بڑی سطح پر انجام دے کر ’اصلی‘ کام کیا جائے گا۔

اس بیان کے فوراً بعد ٹوئٹر پر موجود کئی پاکستانیوں نے یہ نشاندہی کی کہ مودی کو حالات کی ستم ظریفی کی کوئی سمجھ نہیں، بھلا لفظ ’پائلٹ‘ کا استعمال بھی ایسے وقت میں کیا جاتا ہے کہ جب ان کے ملک کا پائلٹ لائن آف کنٹرول کے پار جا کر تباہ ہونے والے طیارے سے ایجکٹ ہوکر نیچے گرا ہو اور پاکستان کی حراست میں ہو۔

ظاہر ہے کہ بھارتی وزیراعظم اس زیر حراست پائلٹ کا تذکرہ نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے ملکی لڑاکا طیاروں کے ایل او سی کے پار جا کر اور پاکستان، جہاں ان کے لڑاکا طیارے پاک فضائیہ کے بھگانے پر اپنا پے لوڈ چھوڑ گئے تھے، کے اندر داخل ہونے کا حوالہ دے رہے تھے۔

بھارت کا مؤقف تھا کہ یہ حملہ خیبرپختونخوا کے شہر بالاکوٹ کے مشرقی حصے میں واقع پہاڑی علاقے جبا میں موجود جیش محمد کے ’ٹریننگ کیمپ‘ کو ہدف بنانے کے لیے کیا تھا، مگر اس میں فقط ایک کچے مکان اور چند درختوں کو ہی نقصان پہنچا۔

تاہم دوسری طرف بھارتی فوج نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ وہ بمباری سے ہونے والے نقصان کی جائزہ رپورٹ آنے کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ ان کے میڈیا کا ایک بڑا حصہ اس شہر بھی پہنچ گئی اور دعوی کیا کہ ’کیمپ کے مقام پر‘ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں۔

اس دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیے نہ تو کوئی سیٹلائٹ اور نہ ہی کوئی زمینی ثبوت دستیاب ہے۔ (اسی میڈیا نے اگلے دن، پاک فضائیہ کے طیارے کو مار گرانے کا نہایت مضحکہ خیز دعوی بھی کیا۔)

پاکستان نے فوری طور پر ردعمل دیا، اگلے ہی دن مقبوضہ کشمیر میں موجود ہندوستانی فوجی ٹھکانوں پر دور سے وار کرنے والے یا بی وی آر (BVR) ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے ہدف لاک کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں خالی اور کھلی جگہ پر فائرنگ کی جسے عمران خان نے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ قرار دیا۔

اس کارروائی کے کچھ ہی دیر بعد دو بھارتی طیارے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔ ایک طیارہ واپس نہ جاسکا، اسے مار گرایا گیا اور اس کا پائلٹ حراست میں لیا گیا۔ بظاہر طور پر، دوسرے طیارے کو بھی تباہ کردیا گیا تھا مگر اس کا ملبہ سرحد پار جا کر گرا۔ جب پاکستان نے پائلٹ کی منصوبہ بند رہائی کا اعلان کیا تو بھارتی میڈیا ایک بار پھر اس اقدام کو ’بھارتی دباؤ‘ سے منسوب کرکے خواہ مخواہ فتح کا شور و غل کرنے لگا۔

پھر کشمیری سیاستدان عمر عبداللہ نے انہیں اس بے وقوفی میں مبتلا ہونے کی یاد دہانی کروائی کیونکہ پائلٹ اب بھی پاکستان میں تھا اور اس طرح کا جنگی جنون سے اس کی رہائی متاثر ہوسکتی تھی۔ شکر ہے کہ پاکستان نے ریٹنگ کے بھوکے میڈیا کو نظرانداز کرتے ہوئے پائلٹ بھارت کے حوالے کیا۔

تاہم، جہاں اہم انتخابات سے چند ہفتے قبل بھارتی وزیراعظم کے الفاظ ان کی ذہنیت کو ظاہر کر رہے ہیں اور جنگی جنون ان کے میڈیا (یہاں مراد پورا بھارتی میڈیا نہیں ہے، وہاں چند معزز میڈیا ادارے بھی ہیں۔) پر سر چڑھ کر بول رہا ہے، وہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بحران کی فضا برقرار رہے گی۔

اگر جنگی طبل کو بجانے کے لیے محض الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے اور ہر قسم کی فوجی مہم جوئی سے دُور رہا جاتا ہے، تو جنوبی ایشیا کے کروڑوں افراد سُکھ کا سانس لے سکتے ہیں کیونکہ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین بڑھتی کشیدگی سے جو بدترین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ان کے بارے میں تو سوچنا تک نہایت سنگین عمل ہے۔

ابھی تک اس بحران اور جنگی طیارے پاکستان کے اندر بھیجنے کے سخت بھارتی فیصلے کہ جس سے عالمی برادری کی ایک بڑی اکثریت کو کچھ خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا، سے جو سب سے نمایاں رد عمل دیکھنے کو ملا وہ تھا پاکستان کے اندر بڑھتا اتحاد۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا کہ وہ حکومت اور مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور ملک کو درپیش اس نازک صورتحال میں کوئی سیاست نہیں کریں گی۔ مخالفین کی ایک بڑی اکثریت جو اسٹیبلشمنٹ پر ملکی سطح پر ہونے والے اختلاف کو اپنے طور پر سنبھالنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتی تھی وہ فوراً سے مادر وطن کے دفاع کو یقینی بنانے کی خاطر مسلح افواج کی کوششوں کی زبردست حمایت کرنے لگے تھے۔

بنیادی طور پر بحران اور ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی ایک دوسرے کے متضاد گروہوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کردیا اور اس پورے وقت میں کسی ایک نے کسی دوسرے کی حب الوطنی کو لے کر سوال نہیں اٹھایا، جو کہ اکثر و بیشتر کیا جاتا ہے۔

ہر ایک خلوص دل سے یہ امید کرتا ہے کہ مودی سرکار کی انتخابی بوکھلاہٹ اور اس کے بعد بننے والی صورتحال کی مرہون منت جو ملکی صفوں میں اتحاد نظر آ رہا ہے وہ برقرار رہے اور مزید مضبوط ہو۔

مختلف رائے رکھنے والے اپنے شہریوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے پُل تعمیر کرنے کے کام کا دارومدار ہماری حکومت اور قومی سلامتی کے ہمارے محافظوں پر ہے۔

چونکہ اس عمل سے حاصل ہونے والے ثمرات کی کوئی انتہا نہیں لہٰذا اس کے لیے اگر داخلی پالیسی پر ہی دوبارہ غور کرنا پڑے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ ایک ایسا اتحاد جہاں لوگ بہت بڑی تعداد میں کسی مسئلے کے لیے رضاکارانہ طور پر ایک جگہ اکٹھا ہونے کے لیے تیار ہوں، وہ ایک مصنوعی اتفاق یا جبری خاموشی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

چند بھارتی تبصرہ نگاروں، بشمول سابق سفارتکار اور مسلح افواج کے ایک افسر، نے تعلقاتِ عامہ کے اقدام میں بھارت پر سبقت لینے اور پھونک پھونک کر پیر رکھنے پر پاکستان کی تعریف کی ہے۔ میڈیا کی ایک بڑی اکثریت ان لوگوں سے متفق کیوں نہیں ہے یہ ایک الگ کہانی ہے۔

تعلقات عامہ کی کامیابیوں کا اندازہ ان سے مرتب ہونے والے اثرات اور اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ آیا ان سے طویل مدتی فوائد حاصل ہوئے ہیں یا نہیں۔

جب تک پاکستان پالیسی اقدام کے ذریعے عالمی رائے میں سبقت لینے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرتا تب تک اس رائے عامہ کی فتح سے شاید کچھ ٹھوس نتائج حاصل نہ ہوں۔

او آئی سی کی جانب سے اسلام آباد سے رائے لیے بغیر متحدہ عرب امارات میں منعقدہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیے جانے پر پاکستان نے او آئی سی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک معقول فیصلہ ہے۔

غالب امکان ہے کہ وہ دعوت نامہ اجلاس کے میزبان ابو ظہبی نے دیا، جس کا شاید اسلام آباد سے کوئی تعلق نہ بنتا ہو۔

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھارت کو اپنے تیل اور پیٹرول مصنوعات کے لیے ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دہلی کو اس کے قریبی ساتھی تہران سے دور کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں۔

پاکستان کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی اور بھرپور طریقے سے اپنا کیس رکھنا چاہیے تھا اور ہندوستان کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتا۔

کسی کو بھی یہ ایک لمحے کے لیے بھی اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پوری کشیدہ صورتحال مقبوضہ کشمیر اور حق خودارادیت کا مطالبہ کرتے کشمیری عوام کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ حق خودارادیت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا۔

یہ مضمون 2 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں