ایف بی آر نے بے نامی جائیداد رکھنے والوں کو سخت سزائیں تیار کرلی

بے نامی ایکٹ فروری 2017 میں بنایا گیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
بے نامی ایکٹ فروری 2017 میں بنایا گیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے حکومت کی جانب سے بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کو ضبط کرنے کا اختیار دیتے ہوئے بے نامی ایکٹ 2019 نافذ کرنے کے بعد اس پر عمل درآمد کے لیے قانونی نکات تیار کرلیے ہیں جس کے تحت سخت سزائیں دی جائیں گے۔

اسلام آباد میں ممبر ایف بی آر ڈاکٹر حامد عتیق سرور، ممبر کسٹم پالیسی جاوید غنی اور ممبر کسٹم جواد آغا نے میڈیا کو بریفنگ دی۔

ڈاکٹر حامد عتیق سرور کا کہنا تھا کہ ‘بے نامی بینک اکاونٹس کی تعداد لاکھوں میں ہے اور بے نامی اکاونٹس کی وجہ سے ہی ہمیں فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، اس قانون کا مقصد بے نامی اکاونٹس کے سلسلے کو روکنا ہے۔

بے نامی اکاؤنٹس سے رقم کے تبادلے سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس نے 9 سو سے زائد کیسز رپورٹس کیے ہیں جس میں کروڑوں روپے کا کاروبار ہوا ہے۔

مزید پڑھیں:ایف بی آر کو بے نامی اکاؤنٹس اور جائیداد ضبط کرنے کا اختیار مل گیا

ڈاکٹر حامد عتیق کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیداد کا کیس بنانا ایف بی آر کا کام ہے جس کے لیے تحقیقاتی اتھارٹی بنائی جائے گی اور اس کا سربراہ گریڈ 21 کا افسر ہوگا اور اس اتھارٹی میں تعیناتی وفاقی حکومت کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی حوالے سے ایک فیڈرل ٹریبونل بھی بنایا جارہا ہے، اگر کیس کا فیصلہ کسی کے خلاف بھی آئے گا تو وہ فیڈرل ٹریبونل میں جاسکے گا اور اس ٹر یبونل کا سربراہ ایک ریٹائرڈ جج ہوگا اور مزید تین ممبران کو بینچ میں شامل کیا جائے گا۔

ایف آئی آر کی جانب اس حوالے سے کی گئی کوششوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیداد سے متعلق معاملات کو دیکھنے کے لیے کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بے نامی جائیداد کی فروخت سے جو رقم حاصل ہوگی وہ بھی بے نامی ہی رہے گی، اگر کسی جائیداد کا کوئی مالک ہی نہ ملے تو وہ جائیداد بھی بے نامی تصور ہوگی جس کو فرضی نام کی بے نامی جائیدادیں کہا جائے گا۔

ڈاکٹر حامد عتیق سرور کا کہنا تھا کہ کسی کے نام کی جائیداد ہو اور اس بندے کو پتا ہی نہ ہو اور وہ اس سے انکار کرے تو اس کو بے نامی جائیداد کہا جائے گا، بے نامی جائیداد پر افسران نوٹس بھیج کر ان سے کلئیر کریں گے جس کے بعد باقاعدہ کارروائی کی جائے گی اور اس کے لیے 120 دن کے اندر بے نامی جائیداد کا چالان تیار کر کے جمع کروانا ہوگا۔

نئے قانون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون انسداد منی لانڈرنگ اور کالے دھن کی روک تھام کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:رمضان پیکج اور سرکاری اداروں کیلئے 10ارب کی اضافی امداد منظور

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر بے نامی دار کیسز میں صرف تفتیشی ایجنسی کے طور پر کام کرے گی، کیس بنا کر بے نامی جائیداد کو کیس سے منسلک کرنے کا اختیار ایف بی آر کو حاصل جبکہ بے نامی دار کے لیے قانون میں سخت سزائیں رکھی گئی ہیں۔

سزاؤں کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بے نامی دار کو اسپیشل کورٹس ایک سال سے 7 سال قید بامشقت سزا دے سکتی ہیں، جو مقدمات میں غلط معلومات دے یا اپنا بیان تبدیل کرے گا اس کو6 ماہ سے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوسکتی ہے۔

ایف بی آر کے رکن کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیداد کے حوالے سے قانون کا اطلاق فروری 2017 میں ہوا تھا اب یہ عدالتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کا اطلاق فروری 2017 سے قبل کرتے ہیں یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بے نامی ہر وہ جائیداد ہے جس کے پیسے ایک فرد نے دیے اور وہ جائیداد کسی اور فرد کے نام ہے، اس قانون میں سفید دھن ہونے کی صورت میں بیوی بچوں اور بہن بھائی کو چھوٹ دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے بے نامی ایکٹ 2019 کو نافذ کرتے ہوئے ایف بی آر کو فرضی ناموں سے رجسٹرڈ جائیدادوں، مہنگی گاڑیوں اور بینک اکاؤنٹس کو ضبط کرنے کا اختیار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں