مساجد میں دہشتگردی پر بھی امریکی صدر متنازع عمل سے باز نہ آئے

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2019
امریکی صدر کی ڈیلیٹ کردہ ٹوئٹ کا عکس — فوٹو بشکریہ فیکٹ بیس
امریکی صدر کی ڈیلیٹ کردہ ٹوئٹ کا عکس — فوٹو بشکریہ فیکٹ بیس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنی صدارتی مہم سے لے اب تک اپنے مسلمان مخالف اور نسل پرستانہ متنازع بیانات کے حوالے سے معروف ہیں، نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہونے والی دہشت گردی پر بھی تعصب کا اظہار کرنے سے باز نہ آئے۔

نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں 49 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جس پر امریکی صدر نے ردِ عمل دیتے ہوئے ہمدردی یا تعزیت کا کوئی بھی لفظ کہنے کے بجائے صرف مسلمان مخالف ویب سائٹ بریٹ بارٹ کی اسٹوری کا لنک شیئر کیا جس میں حملہ آور کے حق میں متنازع باتیں درج تھیں۔

مختلف مواقع پر ٹوئٹ کرنے والے امریکی صدر نے دہشت گردی کے حملے کے 10 گھنٹے گزر جانے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو فون کیا اور گفتگو کر کے متاثرین سے تعزیت اور ہمدردی کی۔

اور انہوں نے نیوزی لینڈ کو پیش کش کرتے ہوئے ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ: دہشت گرد کی بندوق پر درج عبارات کا مطلب کیا ہے؟

بعد ازاں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کرائسٹ چرچ میں ہونے والے واقعے سے دنیا کو نسل پرستی سے لاحق خطرات کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی خطرہ ہے۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر سفید فام روش اختیار کرتے ہوئے حملہ آور کے حوالے سے نرم موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ چند افراد کا گروہ ہے جو کچھ مسائل کا شکار ہیں‘۔

واضح رہے کہ بریٹ بارٹ اپنی مسلمان مخالف اور دائیں بازو کی انتہا پسندانہ اور جانبدار کوریج کے حوالے سے معروف ہے۔

نیوزی لینڈ ہیرالڈ نے لکھا صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو لنک شیئر کیا اس میں امریکی خبررساں ادارے سے معلومات لے کر حملے کے حوالے سے کچھ انتہائی جارحانہ اور تضحیک آمیز باتیں درج تھیں۔

حالانکہ امریکی صدر نے کسی خاص اسٹوری کی جانب اشارہ نہیں کیا تھا لیکن ناقدین نے انہیں ایک انتہا پسندانہ ویب سائٹ کا لنک شیئر کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا، جو اس سے قبل مسلمانوں کے حوالے سے کی گئی تضحیک آمیز ٹوئٹ پر تنازع کا شکار ہوئی تھی۔

ناقدین نے بریٹ کے اسلام مخالف ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ کے ساتھ ٹرمپ کے ٹوئٹ پر سوال اٹھایا کہ آخر امریکی صدر کو یہ لنک شیئر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

خیال رہے کہ بریٹ بارٹ کو اس کے سابق چیئرمین نے بذات خود قوم پرستانہ تحریک کا پلیٹ فارم قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ دہشتگردی: مساجد پر حملہ کرنے والا انتہا پسند عدالت میں پیش

اس ضمن میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار برائن کلاس کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ حملے پر باوقار ردِ عمل دے سکتے تھے یا کسی حملے پر کسی دوسری ویب سائٹ کا لنک شیئر کرتے لیکن انہوں نے بریٹ بارٹ کا انتخاب کیا‘۔

خیال رہے کہ مساجد میں ہونے والے اس حملے کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم دہشت گردی قرار دے چکی تھیں اس کے باوجود مغربی اداروں نے اسے دہشت گرد حملہ نہیں لکھا جس پر سوشل میڈیا صارفین خاصے برہم نظر آئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں