آسٹریلوی وزیر اعظم نے مسلمان مخالف سینیٹر کو انڈا مارنے والے لڑکے کی حمایت کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ انڈا مارنے والے لڑکے پر تشدد کرنے پر سینیٹر کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔

سینیٹر فریسر ایننگ کو نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے حملے کی ذمے داری امیگریشن پر ڈالنے کے بیان پر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔

سینیٹر کے سر پر انڈا مارنے والا 17 سالہ لڑکا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہیرو بن گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ: مساجد پر حملے میں شہید پاکستانیوں کی تعداد 9 ہو گئی

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انڈا مارنے والے کی طرف داری کی اور کہا کہ ’سینیٹر ایننگ کو قانون کی گرفت میں مکمل طور پر لانا چاہیے‘۔

نیوز ویک کے مطابق اسکاٹ موریسن کا کہنا تھا کہ سینیٹر ایننگ کے مسلمانوں سے متعلق ریمارکس نفرت انگیز ہیں، ایسے جملے ادا کرنے پر سینیٹر ایننگ کو شرم آنی چاہیے۔

پولیس کی جانب سے لڑکے پر سینیٹر کو انڈا مارنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ انڈا مارنے والے لڑکے کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

پولیس نے سینیٹر کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’سینیٹر نے جوابی کارروائی کی اور نوجوان لڑکے کو مارا‘۔

نیوزی لینڈ مساجد پر حملہ

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں موجود 2 مساجد النور مسجد اور لین ووڈ میں دہشت گردوں نے اس وقت داخل ہو کر فائرنگ کردی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس افسوسناک واقعے میں 49 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے، انہوں نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق واقعے کے بعد 4 حملہ آوروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں 3 مرد اور ایک خاتون شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

فائرنگ کے وقت بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم بھی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچی تھی تاہم فائرنگ کی آواز سن کر بچ نکلنے میں کامیاب رہی اور واپس ہوٹل پہنچ گئی۔

مذکورہ واقعے کے بعد کرائسٹ چرچ میں بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہفتے کو ہونے والا تیسرا ٹیسٹ منسوخ کردیا گیا اور بعد ازاں بنگلہ دیش نے فوری طور پر نیوزی لینڈ کا دورہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

مسجد میں فائرنگ کرنے والے دہشت گرد نے حملے کی لائیو ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی جسے بعد میں نیوزی لینڈ حکام کی درخواست پر دل دہلا دینے والی قرار دیتے ہوئے سوشل میڈٰیا سے ہٹادیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں