آسٹریلیا: نیوزی لینڈ حملے کے دہشت گرد کی والدہ، بہن کے گھر چھاپے

18 مارچ 2019
دہشت گرد نے سرکاری وکیل کو برطرف کردیا — فوٹو: اے بی سی
دہشت گرد نے سرکاری وکیل کو برطرف کردیا — فوٹو: اے بی سی

آسٹریلین میڈیا کا کہنا ہے کہ پولیس نے آسٹریلیا کے شمالی علاقے میں نیوزی لینڈ مساجد پر حملے میں ملوث دہشت گرد کی والدہ اور بہن کے گھر چھاپہ مارا ہے۔

امریکی خبررساں ادارے ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے نیوزی لینڈ مساجد حملے سے متعلق شواہد کی تلاش کے لیے آسٹریلیا کے شمالی علاقوں میں دو گھروں میں چھاپے مارے ہیں جن سے متعلق آسٹریلین میڈیا کا کہنا ہے کہ دہشت گرد کی والدہ اور بہن کے گھر چھاپے مارے گئے ۔

خیال رہے کہ برینٹن ٹیرنٹ سے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ آسٹریلوی شہری ہیں اور ساؤتھ ویلز ٹاؤن آف گرافٹن کے رہائشی ہیں لیکن آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ 3 برس میں آسٹریلیا میں صرف 45 دن گزارے ہیں۔

ان دو خواتین کی شناخت برینٹن کی والدہ شیرون ٹیرنٹ اور بہن لورین ٹیرنٹ کے نام سے ہوئی تاہم انہوں نے پولیس کی جانب سے تلاشی کے بعد میڈیا سے بات چیت نہیں کی۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ دہشتگردی: کئی لوگوں کی تربیت کرنے والا حملہ آور کون ہے؟

دہشت گرد کی والدہ اور بہن پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔

نائن نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ 15 مارچ کو کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملے کے بعد دونوں خواتین آج (18مارچ کو) اپنے اپنے گھر واپس آئی تھیں۔

شیرون ٹیرنٹ نیو ساؤتھ ویلز ٹاؤن آف لارنس اور برینٹن کی بہن سینڈی بیچ میں رہتی ہیں۔

آسٹریلوی پولیس نے کہا کہ گھروں پر چھاپے کا مقصد حملے کی تحقیقات میں نیوزی لینڈ پولیس کی مدد کے لیے مواد اکٹھا کرنا تھا۔

دوسری جانب نیوزی لینڈ پولیس کمشنر مائیک بش نے کہا کہ آسٹریلین پولیس کے چھاپوں میں کچھ ایسا مواد نہیں ملا جس سے ان کے عوام کو خطرہ ہو۔

برینٹن ٹیرنٹ نے وکیل کو برطرف کردیا

نیوزی لینڈ مساجد حملے کے دہشت گرد برینٹن ٹیرنت نے ریاست کی جانب سے تعینات کیے گئیے وکیل کو برطرف کردیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی ‘ کے مطابق 16 مارچ کو ہونے والی سماعت میں رچرڈ پیٹرس نے برینٹن ٹیرنٹ کی نمائندگی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ کرنے والا دہشت گرد عدالت میں پیش

انہوں نے بتایا کہ برینٹن اس کیس میں خود نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔

رچرڈ نے کہا کہ ’ انہیں دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں، بلکہ یہ محسوس ہوا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے‘۔

غیر معمولی سزا

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی ‘ کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہےکہ برینٹن ٹیرنٹ کو غیرمعمولی سزا کا سامنا ہے جس کے تحت وہ رہائی کی درخواست نہیں دے سکتے۔

28 سالہ آسٹریلوی شہری پر نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں فائرنگ کے نتیجے میں 50 افراد کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے اور اسے عمر قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں دہشت گرد حملے، 49 افراد جاں بحق

نیوزی لینڈ میں عام طور پر قتل کے جرم میں ممکنہ پیرول سے قبل کم از کم 10 سال قید کی سزائی سنائی جاتی ہے۔

کرمنل لائر سیمون کولن کا کہنا ہے کہ ’ دہشت گرد کو پیرول کے بغیر قید کی سزا سنائے جانے کے زیادہ امکانات ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ اس قسم کی سزا غیر معمولی ہوگی‘۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 2001 میں نیوزی لینڈ کی تاریخ کی طویل ترین سزا اس وقت سنائی گئی تھی جب ایک جج نے والیم بیل کو تہرے قتل کے جرم میں کم از کم 30 سال قید کی عمر قید کی سزا سنائی تھی‘۔

نیوزی لینڈ مساجد پر حملہ

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ کے روز 2 مساجد النور مسجد اور لِن ووڈ میں دہشت گردوں نے اس وقت داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔

اس افسوسناک واقعے میں 50 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے حملوں کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔

فائرنگ کے وقت بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم بھی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچی تھی تاہم فائرنگ کی آواز سن کر بچ نکلنے میں کامیاب رہی اور واپس ہوٹل پہنچ گئی۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد کا تاریخی پس منظر

مذکورہ واقعے کے بعد کرائسٹ چرچ میں بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہفتے کو ہونے والا تیسرا ٹیسٹ منسوخ کردیا گیا اور بعد ازاں بنگلہ دیش نے فوری طور پر نیوزی لینڈ کا دورہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔

مسجد میں فائرنگ کرنے والے دہشت گرد نے حملے کی لائیو ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی، جسے بعد میں نیوزی لینڈ حکام کی درخواست پر دل دہلا دینے والی قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا سے ہٹادیا گیا۔

بعد ازاں نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ملزم پر قتل کے الزامات عائد کردیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں