احتساب عدالتوں کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں، سینیٹ کمیٹی

21 مارچ 2019
کمیٹی کا اجلاس سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں ہوا—فائل فوٹو: ڈان
کمیٹی کا اجلاس سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں ہوا—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے قانونی اصلاحات نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ احتساب عدالت سمیت دیگر خصوصی عدالتیں بغیر کسی ’چیکس اینڈ بیلنسز‘ کے کام کررہیں اور یہ نہ ہی ہائیکورٹس کی نگرانی میں ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ وزارت قانون کے انتظامی کنٹرول میں آتی ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں ہوا، جس میں دیگر سینیٹر رانا مقبول احمد، اعظم خان سواتی، سابق سینیٹر انور بھندر، قانونی ماہر راجا انعام امین منہاس اور وزارت قانون و انصاف کے حکام بھی موجود تھے۔

دوران اجلاس جب سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سیشن عدالتوں کے ساتھ خصوصی عدالتوں کے انضمام سے متعلق ایجنڈے پر بات کی تو یہ مشاہدہ کیا کہ احتساب عدالتوں اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی خصوصی عدالتیں بغیر کسی نگرانی یا چیکس اینڈ بیلنسز کے کام کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے پاس مجھے طلب کرنے کا اختیار نہیں، وفاقی وزیر

سینیٹر رانا مقبول نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امین منہاس سے کہا کہ وہ کمیٹی کو آگاہ کریں کہ کون احتساب عدالتوں کی نگرانی کر رہا ہے۔

اس پر امین منہاس نے جواب دیا کہ ان کی ذاتی معلومات کے مطابق قومی احتساب بیورو(نیب)، احتساب عدالت کے معاملات کی نگرانی کر رہا ہے، جو ان کے مطابق مفادات کا ٹکراؤ تھا۔

وزارت قانون و انصاف کے مشیر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے کمیٹی کو بتایا اگرچہ یہ عدالتیں وفاقی حکومت کی خصوصی عدالتیں ہیں، لہٰذا انتظامیہ کا ان عدالتوں میں نگرانی کا کردار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صرف ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی سےمتعلقہ تقرری کرتی ہیں اور اس کے بعد عدالت خود اپنے معاملات کو دیکھتی ہے۔

جس پر سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اگر خصوصی عدالتیں سیشن عدالتوں کے ساتھ ضم ہوجاتیں ہیں تو ان کی موثر نگرانی ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ اجلاس میں وزرا کی غیرحاضری، وزیراعظم سے جواب طلب

اس موقع پر کمیٹی کی جانب سے غیر قانونی قبضہ منتقلی ایکٹ 2005 پر بھی تبادلہ خیال کیا اور تجویز دی کہ قانون میں قبضہ مافیا کی تعریف واضح کی جائے کیونکہ اس سے نہ صرف قبضہ مافیا بلکہ ان انفرادی کیسز پر بھی اثر پڑ رہا جو یہ سوچ کر زمین خریدتے کہ انہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں۔

کمیٹی کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی ترمیم سے قبل قانون کی گنجائش کی تفصیلات اور اس معاملے پر سپریم کورٹ کے متعلقہ فیصلوں کو مطالعہ کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں گارڈین اور وارڈس ایکٹ 1861، مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961، جانشینی ایکٹ 1888 پر بھی بات چیت کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کو بلایا جائے گا اور طلاق کے بعد بچوں کی حوالگی اور اہلیہ کو رقم کی ادائیگی کے معاملات پر غور کیا جائے گا۔


یہ خبر 21 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Mar 21, 2019 07:07pm
احتساب عدالت غلط کرے تو ہائی کورٹ و سپریم کورٹ موجود ہے۔