وزیر اعظم نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نوٹس لے لیا

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2019
وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دے کر لڑکیوں کی بازیابی کا حکم دے دیا— فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دے کر لڑکیوں کی بازیابی کا حکم دے دیا— فائل فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم عمران خان نے سندھ سے دو ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر زیر گردش کر رہی تھیں جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی زیر گردش کر رہی ہیں جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی: شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا بل منظور

وکیل اور سماجی رہنما جبران ناصر نے ٹوئٹر پر اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے ویڈیو شیئر کی اور بتایا کہ لڑکیوں کی عمریں 14 اور 16سال ہیں۔

ایک ویڈیو میں ایک قاضی کو لڑکیوں اور ان دو افراد کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جن سے ان کی شادی ہوئی۔

قاضی نے کہا کہ لڑکیاں اسلام سے متاثر ہوئیں اور الزام عائد کیا کہ لڑکیوں کے والدین غلط پروپیگنڈا کر کے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

جبران ناصر نے کہا کہ ان بہنوں کا مذہب درگاہ برچنڈی شریف میں تبدیل کرایا گیا، درگاہ کے مطابق لڑکیاں مذہب تبدیل کرنا چاہتی تھیں کیونکہ وہ اسلام کی تعلیمات سے متاثر تھیں لیکن مذہب کی تبدیلی کے بعد پہلا عمل ان کی کم عمری میں شادی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ان لڑکیوں کو مبینہ طور پر رحیم یار خان منتقل کردیا گیا ہے۔

گزشتہ رات وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ حکومت نے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے اغوا کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی اور کم عمری میں شادی کا نوٹس لے لیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہندو لڑکیوں کے اغوا کےبعد جبراً مذہب تبدیلی انتہاپسندی ہے، عمران

انہوں نے آج صبح اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو واقعے کی فوری تحقیقات اور بچیوں کی بازیابی کا حکم دیا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے سندھ اور پنجاب حکومت کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اس معاملے پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور سندھ حکومت ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات وضع کرے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ پاکستان میں اقلیتیں ہمارے جھنڈے کا سفید رنگ ہیں اور ہمیں اپنے تمام رنگ عزیز ہیں اور اپنے پرچم کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

ادھر لڑکیوں کے والدین نے 20 مارچ کو واقعے کی ایف آئی آر درج کرا دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی لڑکیوں کا مذہب زبردستی تبدیل کرایا گیا۔

جبران ناصر کے مطابق مقامی پولیس اسٹیشن میں ’شادی کے لیے لڑکیوں کے اغوا‘ کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے، ایف آئی آر میں لڑکیوں کی عمر 14 اور 16سال ہے، سندھ کے قانون کے تحت 18سال سے کم عمر کسی بھی شہری کی شادی نہیں ہو سکتی۔

اس سلسلے میں گھوٹکی پولیس سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔

مزید پڑھیں: تھر: لڑکی کے اغوا اور مذہب کی جبری تبدیلی کا دعویٰ

پاکستان میں اکثر ہندو برادری سندھ میں رہائش پذیر ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع عمر کوٹ میں ہر ماہ کم و بیش 25 لڑکیوں کی زبردستی شادی کرائی جاتی ہے۔

گزشتہ سال انتخابات سے قبل عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو اقلیتوں کا تحفظ کریں گے اور ساتھ ساتھ اعلان کیا تھا کہ ہندو لڑکیوں کی مسلمانوں سے جبری شادیوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں