نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار پر فرد جرم عائد

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2019
نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار مرکزی ملزم ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار مرکزی ملزم ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار اور دیگر 17 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

شہر قائد کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، جہاں مرکزی ملزم راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے۔

عدالت کی جانب سے کیس میں راؤ انوار اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی، جہاں تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔

اس موقع پر عدالت نے آئندہ سماعت پر مدعی مقدمہ اور عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کو طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: پولیس افسر راؤ انوار ریٹائر

ساتھ ہی عدالت نے ملزمان کی جانب سے صحت جرم سے انکار پر تمام گواہان کو بھی 11 اپریل کو عدالت بلا لیا، مذکورہ کیس کی اگلی سماعت اسی روز ہوگی۔

واضح رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت 5 ملزمان ضمانت پر ہیں جبکہ مزید 13 پولیس اہلکار و افسران جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں موجود ہیں۔

نقیب اللہ قتل کیس

13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا تھا، جنہیں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معاملہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قرار

اس وقت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جھنگوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم نقیب اللہ محسود کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئی تھیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پیش ہونے کا موقع بھی دیا تھا، تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ڈرامائی انداز میں عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے، جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں یہ کیس کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کو منتقل کردیا گیا تھا، جہاں مختلف سماعتوں میں راؤ انوار کو پیش کیا گیا تھا لیکن ان پیشیوں کے دوران راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی انہیں خصوصی بیلٹ پہنائی گئی، جس پر عوام کی جانب سے کافی اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: 'اہم چشم دید گواہ کو لاپتا کردیا گیا'

عدالت میں زیر سماعت اس معاملے میں راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں رواں سال جنوری کے آغاز میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس سروسز سے ریٹائرڈ ہوگئے۔

تاہم ان کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جاری رہا، جہاں ایک بات قابل ذکر رہی کہ ریٹائرمنٹ کے باوجود راؤ انوار پولیس پروٹوکول میں عدالت آتے رہے۔

علاوہ ازیں 24 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے خلاف پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا تھا اور مقتولين کے خلاف درج مقدمات بھی ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Raheem uddeen Mar 26, 2019 04:19pm
Justice delayed is Justice denied, all must be held equal before the law.