اسلام آباد ہائیکورٹ: جعلی اکاؤنٹس کیس میں زرداری اور فریال کی عبوری ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2019
گزشتہ روز گرفتاری کے خدشے کے پیشِ نظر انہوں نے عبوری ضمانت کی درخواست دی تھی—فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
گزشتہ روز گرفتاری کے خدشے کے پیشِ نظر انہوں نے عبوری ضمانت کی درخواست دی تھی—فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی 10 اپریل تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔

جسٹس محسن کیانی اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکے بھی جمع کروانے کا حکم دیا۔

سابق صدر کی عدالت میں پیشِی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ 15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ کورٹ نے قومی احتساب بیورو کی درخواست پر منی لانڈرنگ کیس کراچی سے اسلام آباد کی احتساب عدالت منتقل کرنے کے ساتھ آصف زرداری اور فریال تالپور کی عبوری ضمانت منسوخ کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: زرداری اور فریال کی ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے درخواست

اس سلسلے میں گزشتہ روز آصف زرداری اور فریال تالپور نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی علیحدہ علیحدہ درخواست دائر کی تھیں۔

عدالت عالیہ میں سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک کے توسط سے دائر کی گئی اس درخواست میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ٹرائل مکمل ہونے تک نیب کو گرفتاری سے روکا جائے اور فوری طور پرعبوری ضمانت دی جائے۔

آصف زرداری کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں اب تک 3 مرتبہ طلبی کے نوٹس موصول ہوچکے ہیں، معلوم نہیں کہ میرے خلاف کتنی انکوائریز چل رہی ہیں اور نیب کسی بھی انکوائری میں مجھے گرفتار کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: آصف زرداری کی نااہلی کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس معاملے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، حفاظتی ضمانت 29 مارچ کو ختم ہورہی ہے لہٰذا ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی جائے۔

ساتھ ہی آصف زرداری اور فریال تالپور کی اس درخواست میں استدعا کی گئی کہ نیب کو ہمارے خلاف تمام انکوائریز کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔

یاد رہے کہ 15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کرلی تھی اور ساتھ ہی آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زر ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل، آصف زرداری کی حفاظتی ضمانت منسوخ

جس کے بعد 16 مارچ کو سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بینکنگ عدالت کی جانب سے کیس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جبکہ ضمانت کی درخواست بھی دائر کردی تھی۔

بعد ازاں 19 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی 10 روز کی عبوری ضمانت منظور کرلی تھی۔

تاہم اس کیس کے اسلام آباد منتقلی کی وجہ سے 22 مارچ کو احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو میگا منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 8 اپریل کو طلب کیا تھا۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 20 مارچ کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پارک لین اسٹیٹ کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کے سامنے پیش ہوکر اپنے بیانات قلم بند کرائے تھے۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے نیب کے سامنے بیانات قلمبند کرادیے

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی پی پی قیادت کے بعد نیب نے وزیراعلیٰ سندھ کو بھی طلب کرلیا

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں